
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
”ماں“لفظ اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتا ہے۔ہر ذی شعور انسان نے ماں پر قلم فرسائی کی ہے لیکن ماں کی محبت کو احاطہ تحریر لانا ناممکن ہے۔محمد اکبر بخاری نے سچ کہا ہے کہ ماں تو کائنات سے بھی بڑھ کر کل کائنات ہے۔دُنیا کی تخلیق سے لے کر انسان کی تخلیق تک اور اب تک ماں کی لافانی محبت پہ جتنا بھی لکھا گیا،کمال ہے لیکن انسان اپنی ماں کی محبت کے سمندروں کی گہرائی نہیں جان سکااور جان بھی نہیں کیسے سکتا ہے۔ماں کی محبتوں کے سمندر کی انتہانہیں ہے:
رحمت ِ حق کا عروج ِ بے پنہاں
مرکزِ انوار دوعالم ہے ماں
ماں کی دعا کو جنت کی ہوا کہا گیا۔جنت ماؤں کے قدموں تلے رکھ دی گئی۔ماں پہ لاکھوں کرڑوں اقوال و کہاوتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔تحقیق کا دائرہ بڑھاتے ہیں تو ہر ادب میں ماں کے قصیدے ملتے ہیں۔نثری ادب ہو یا شعر،ہر جگہ اہل علم و محبت نے ماں کو اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ماں کی محبت پہ داستانیں،ناولز اور افسانے پڑھنے کو ملتے ہیں۔کتب کی طرف آئیں تو قدرت اللہ شہاب”ماں جی“لکھتے ہیں،ضیاشاہد نے ”امی جی“لکھی یوں ایک طویل فہرست ماں کو خراج تحسین پیش کرنے والوں کی ملتی ہے۔اکبر بخاری کہتے ہیں:
کتنے شجر اونچے پھیلے اور گہرے ہیں
ماں کی دُعا کا سایہ سب سے گہرا ہے
”ماں محبت ہے“سید محمد اکبر بخاری کا شعری مجموعہ ہے۔سید محمد اکبر بخاری کا نام تخیل کی دُنیا پہ چمکتا ہے تو مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب میری ملاقات،آپ کے دولت خانہ پر ہوتی ہے۔چند ساعتوں کی اس ملاقات کا نقش مٹائے نہیں مٹتا۔شفیق و رفیق شخصیت،جن کے قول و قرار میں محبت ہی محبت ہے۔مسکراہٹ کے پیکر،ملنسار شخصیت کے جس بھی پہلو کو دیکھا جائے کمال ہے۔معلم بھی ہیں،کالم نگار،شاعروادیب بھی ہیں۔
سید محمد اکبر بخاری کے کالم نوائے وقت میں پڑھے،دوستوں سے ذکر سنا،ہر پل،ہر جگہ آپ کے لیے محبتوں کے پھول،دعاؤں کے نذرانے ملتے ہیں۔میری خوش بختی دیکھئیے۔”ماں محبت ہے“کتاب رانا محمد کاشف نعیم،پرنسپل دی اسلامک آئیڈیل اسکول گلستان اشعر ملتان نے محبتیں نچھاور کرتے ہوئے پیش کی۔رانا محمد کاشف نعیم کا ہر پہلو شان دار و جان دار ہے۔آپ معلم بھی ہیں،کرکٹر بھی،سوشل ورکر بھی۔شفقت و مروت کے پیکر اور ہر پل ساتھ دینے اور نبھانے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ صحت کی بادشاہی کے ساتھ سلامت رکھے آمین۔آپ کے مرہون ِمنت آج پھرسید محمد اکبر بخاری سے،یادوں کے دریچوں،جذبات و احساسات کے اظہار اور ماں سے بے پناہ محبت کی مثال ”ماں محبت ہے“کی صورت ملاقات ہورہی ہے۔
دُنیا گھومو اک بھی تم نہ پاؤگے
ماں کے دل کے جیسا اکبرؔ دل جو ہو
”ماں محبت ہے“بہترین اور کمال مجموعہ ہے۔ماں سے عقیدت و محبت کا لازوال وبے مثال نمونہ۔سید محمد اکبر بخاری کی ماں سے محبت ہے جو مختلف پہلوؤں سے اشعار کے ڈھانچے میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ماں،تو ماں ہی ہوتی ہے۔دشمن کی ہو یا دوست کی،اپنی ہو یا پرائی،اسی لیے کہاجاتا ہے مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
جنتوں کے بھی بالا خانوں سے
ماں تو اُتری ہے آسمانوں سے
سید محمد اکبر بخاری نے اپنے شعری مجموعے ”ماں محبت ہے“میں ماں سے والہانہ محبت کا عکس دکھایا ہے۔درد ِدل رکھنے والا بیٹا ہی ایسے اشعار و اظہار کر سکتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس مقدس رشتے کو بھی پامال کیا جارہا ہے۔ماں کے بطن سے جنم لینے والے اس کو جینے کی سزا دے رہے ہیں۔ماں جو اپنی اولادکا ہر لمحہ،ہر پل خیر ہی چاہتی ہے۔اس کو بے درد زمانے میں رسوا کیا جارہا ہے:
ماں کا سو بار دُکھایا ہے دل
اُ س نے پر دل سے لگایا ہے دل
”ماں محبت ہے“کے حوالے پیرعامر محمود نقش بندی اظہار خیال کرتے ہوئے درست ہی فرماتے ہیں کہ اس کتاب سے لوگوں کے دلوں میں ماں کی محبت اُجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔جس ماں کے رشتے کو کائنات کے مالک و خالق نے عزتیں اور مقام عطا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس مقدس رشتے کی عظمت وشان سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔سید محمد اکبر بخاری بھی شعر کے سانچے میں سوال کرتے نظر آتے ہیں:
ماں نے خود اپنے خوں سے سینچا ہے
کس نے یوں دل سے بنایا ہے دل؟
سید محمد اکبر بخاری نے دیدہ دلیری سے نازک جذبوں کا اظہار”ماں محبت ہے“میں کیا ہے۔یہ انہی کا ہی خاصہ ہے۔ماں سے محبت کا دعویٰ دار تو ہر کوئی ہے لیکن اظہار کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”ماں محبت ہے“کے ہر شعر میں ماں سے عقیدت ومحبت کا اظہار جھلکتا ہے۔ہر شعر ماں کی محبت،عظمت و شان بیان کرتا ہے۔یہ ماں سے عشق ہی کی مثال ہے۔یہ شعر دیکھیے:
زندگانی کا بس خلاصہ ہے
ماں میری میرا کل اثاثہ ہے
ماں حیوان کی ہو یا انسان کی،اس مقدس رشتے کا کوئی نعم البدل نہیں۔اس فانی دُنیا کا قیمتی ترین اثاثہ ماں ہی ہے۔ماں ہے تو جہان ہے۔ماں کے بغیر گھر،گھر نہیں رہتا،قبرستان بن جاتاہے۔فرماں بردار اولادہی ماں کی محبت کے گن گاتی ہے۔اس نام و جذبے کی لاج رکھتی ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔اکبر بخاری کہتے ہیں:
ماں ملے گی نہیں نہ اس کا پیار
تم سے ہو جتنا چھان لو بازار
سید محمد اکبر بخاری ہر حال میں شکر گزار رہتا ہے۔مشکلات سے لڑتا ہے۔حالات جیسے بھی ہوں پُر امید رہتا ہے کیوں کہ ماں کی دعائیں اس کے ساتھ رہتی ہیں۔آپ نے اپنی ماں کو راضی کیا ہے اسی لیے رب بھی راضی ہے۔”ماں محبت ہے“میں کہتے ہیں:
مشکلو!راستے سے ہٹ جاؤ
ماں کے پیروں کو چھو کے آیا ہوں
ماں!اس کائنات میں بہت بڑا حوالہ ہے۔ماں کی التجائیں عرش معلی کو ہلا دیتی ہیں۔ماں راضی تو جگ راضی،سب راضی،رب راضی۔دُنیا و آخرت کی کامیابیوں کا راز ماں ہے۔یہ پیغام سید محمداکبر جابہ جا ”ماں محبت ہے“میں دیتے نظر آتے ہیں:
ماں کی اکبرؔجو نگاہوں میں رہا
وہ سدا رب کی پناہوں میں رہا
”ماں محبت ہے“شعری مجموعہ ماں کے احساسات اور جذبات سے روشنا س کراتی ہے۔ماں کی ہستی صرف خاندانی زندگی کا استعارہ نہیں بلکہ آفاقی معنویت حقیقت ہے۔ماں ہی ہے جو انسان کو اپنے خالق حقیقی کے قریب سے قریب تر کرتی ہے۔انسان ماں کی گود میں پہلا لفظ ”اللہ“ہی سیکھتا ہے۔سیکھانے والی ماں ہی اللہ سے ملواتی ہے۔
ہر زمانے کا یہ رہا ہے یقیں
ماں کی عظمت سے آگے کچھ بھی نہیں
یہ ماں ہی ہے جو خالی ہاتھ رہ کر بھی اولاد کو خالی ہاتھ نہیں رہنے دیتی۔ماں اتنی شفیق ہے کہ اس کی دعاسے اولادہر بلاسے دُور رہتی ہے۔ماں کو بیٹا یا بیٹا کا دوست ہی ملنے کیوں نہ آجائے،خالی ہاتھ جانے نہیں دیتی۔دعاؤں کے نذرانے،محبتوں کی چھائیوں میں رخصت کرکے زاد راہ بھی عطا کر دیتی ہے۔ایسی ماؤں پر ہی سب کچھ قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔
سب سے بڑھ کر شفیق ہے اکبرؔ
اس لیے ماں کو پیر مانا ہے
ماں زندہ ہے تو اولاد کے لیے نعمت خداوندی ہے۔ہر لمحہ اولاد کے لیے خیر طلب کرتی رہتی ہے۔ماں اس دُنیا سے پردہ فرماجائے تواللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے فرما دیتا ہے اب سنبھل کے چلنا۔حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ یاد آتا ہے۔جب اللہ نے فرمایا:اے موسی!سنبھل کے آنا،دعا کرنے والی رخصت ہوئی۔
بجھنے والی ہے اب جہنم بھی
ماں نے آنسو جو اپنے ڈالے ہیں
”ماں محبت ہے“ماں سے محبت کا خوب صورت بیانیہ ہے۔سید محمد اکبر بخاری نے مختلف زاویوں سے ماں سے محبت کا اظہار کیا ہے اور پڑھنے کو ماں سے محبت کرنے کا بہترین درس دیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر ذی روح کو ماں سے محبت وعقیدت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔سید محمد اکبر بخاری کے اس شعر کے ساتھ اجازت:
ماں خدا کی خودلکھی تحریر ہے
ماں کی تو ہر اک دُعا تقدیر ہے




