دیر آید درست آید

غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکی شہری، بالخصوص افغان باشندے، ایک عرصے سے ملک کی سکیورٹی، معیشت اور سماجی توازن کے لیے سنگین چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک ریاستِ پاکستان نے انسانیت کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے افغان شہریوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں،بلاتفریق،روزگار اور رہائش کے مواقع بھی فراہم کیے۔ تاہم جب مہمان نوازی کو غلط استعمال کرتے ہوئے کچھ دہشتگردعناصر نے اس جذبے کو کمزوری سمجھ لیا اور غیر قانونی طور پر مقیم ہو کر ملکی قوانین اور سکیورٹی کے لیے خطرہ بننے لگے ہیں، تو اب ریاستی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں جو فیصلہ کیا ہے، وہ نہ صرف بروقت بلکہ ملکی سلامتی کے تناظر میں انتہائی ناگزیر اقدام ہے۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیرِ صدارت امن و امان سے متعلق مسلسل چھٹا اجلاس اس بات کا مظہر ہے کہ صوبائی حکومت اس مسئلے پر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی طور پر کام کر رہی ہے۔ اجلاس میں واضح احکامات جاری کیے گئے کہ کسی بھی افغان یا غیر ملکی شہری کو کوئی پاکستانی اپنی جائیداد،چاہے وہ گھر ہو، دکان، ہوٹل، فیکٹری یا پٹرول پمپ،کرائے پر دیتا ہے تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔یہ فیصلہ بظاہر سخت ضرور لگتا ہے پر درحقیقت یہ اقدام قومی سلامتی، سماجی نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔پنجاب حکومت نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ انتظامی مشینری کو بھی اس سلسلے میں فعال کر دیا ہے۔ پٹواری، نمبردار اور ایس ایچ او کو غیر ملکیوں کو کرائے پر دی جانے والی پراپرٹیز کی رپورٹ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہ جامع اور مربوط حکمتِ عملی ہے کیونکہ اکثر اوقات ایسے معاملات مقامی سطح پر چھپائے جاتے ہیں جہاں ریاستی اداروں کی براہِ راست رسائی نہیں ہوتی۔اب جب کہ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ طلب کی جا رہی ہے، تو اس سے نہ صرف نگرانی کے نظام میں شفافیت آئے گی بلکہ ممکنہ خطرات کی نشاندہی بھی بروقت ہوسکے گی۔پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں فیلڈ سروے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی مکمل نشاندہی کی جا سکے۔یہ قدم کسی خاص قوم یا برادری کے خلاف نہیں بلکہ ایک ریاستی فریضے کے طور پر اٹھایا گیا ہے، جس کا مقصد قانون کی عملداری اور قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ خاص طور پر وہ غیر ملکی جو وزٹ ویزہ کی آڑ میں پاکستان میں داخل ہو کر غیر قانونی طور پر ملازمتیں کر رہے ہیں اب قانون کے شکنجے میں آئیں گے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کوئی بے گناہ شہری زد میں نہ آئے۔یہ نقطہ نہایت اہم ہے کیونکہ قانون کی عملداری کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف نے واضح طور پر ہدایت دی ہے کہ ذمہ داروں کو پکڑا جائے،انصاف کے تقاضوں کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جائے۔یہی وہ توازن ہے جو کسی بھی مہذب اور قانون پسند معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔اجلاس کو دی گئی بریفنگ کے مطابق، صوبے کے تمام اضلاع میں افغان باشندوں کے لیے 45 ہولڈنگ سنٹر قائم کیے گئے ہیں، جہاں انہیں قیام و طعام کے انتظامات کے ساتھ طورخم بارڈر تک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔ اس سے حکومت کے اس عزم کا اندازہ ہوتا ہے کہ کارروائی کے باوجود انسانی ہمدردی کے اصولوں کو پسِ پشت نہیں ڈالا گیا۔افغان باشندوں کی نشاندہی کے لیے جدید چہرہ شناس ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے، جو کہ سکیورٹی انتظامات میں ایک اہم پیش رفت ہے۔پنجاب میں غیر قانونی اسلحے کے خلاف جاری مہم بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، کیونکہ غیر قانونی غیر ملکیوں کی موجودگی اکثر غیر قانونی اسلحے اور جرائم کے نیٹ ورکس سے منسلک پائی گئی ہے۔اسی تناظر میں انتہا پسند نظریات کے پرچارکوں اور ان کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے خلاف بھی کارروائیاں تیز کی گئی ہیں۔پنجاب میں مدارس کو ضروری کارروائی کے بعد ڈی سیل کیا جا رہا ہے تاکہ دینی تعلیم کے اداروں کو بھی شفافیت اور قانون کے دائرے میں لایا جا سکے۔ ماضی کو دیکھا جائے تو پاکستان نے افغان مہاجرین کو پناہ دے کر ایک انسانی اور اسلامی فریضہ ادا کیاپر اب جب کہ افغانستان میں سیاسی و انتظامی ڈھانچہ بحال ہو چکا ہے، لاکھوں افغان باشندوں کا غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام ملکی مفاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ان میں سے کچھ جرائم، اسمگلنگ، اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس سے وابستہ ہیں، جس سے سکیورٹی اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف واضح اور سخت موقف اختیار کرے۔یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست کی خودمختاری تب ہی محفوظ رہ سکتی ہے جب اس کی سرحدوں کے اندر ہر شخص قانون کے تابع ہو۔ غیر قانونی غیر ملکیوں کو پراپرٹی کرائے پر دینا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ریاستی سلامتی سے بھی کھیلنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ کہ ایسے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے، نہایت درست اور ضروری ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان نے اس اقدام میں تاخیر ضرور کی، اب ”دیر آید درست آید” کے مصداق حکومتِ پنجاب نے وہ قدم اٹھایا ہے جو برسوں پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ آج جب خطے میں دہشت گردی، منشیات فروشی، غیر قانونی ہجرت اور معاشی عدم توازن جیسے خطرات سر اٹھا رہے ہیں، تو پاکستان کسی بھی قسم کی غفلت یا نرمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف اور ان کی ٹیم کے اقدامات نہ صرف قانون کے نفاذ کی سمت ایک مضبوط قدم ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ پنجاب اب غیر قانونی غیر ملکیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں رہا۔ یہ اقدامات نہ صرف سکیورٹی کے لیے سودمند ہوں گے بلکہ معاشی و سماجی استحکام کے لیے بھی ضروری ہیں۔ یاد رہے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کسی قوم یا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ریاستی نظم و نسق کی بقا کے لیے ہے۔حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ ایک جرات مندانہ اور قومی سلامتی پر مبنی پالیسی ہے جسے عوامی حمایت کے ساتھ آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ ریاستِ پاکستان کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے قوانین پر عمل درآمد میں کسی مصلحت یا دباؤ کو خاطر میں نہ لائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے پاکستان ایک مضبوط، محفوظ اور خودمختار ریاست کے طور پر اپنا مستقبل محفوظ بنا سکتا ہے۔




