کالمز

گڈ گورننس کا آغاز سیکرٹریٹ سے ہونا چاہیے؟

سیکرٹریٹ کے کام کی ڈسپوزل آزادکشمیر عبوری آئین 1974ء کے آرٹیکل 58، رولز آف بزنس 1985 (نظر ثانی شدہ 2021ء) کے تابع "Secretariat Instructions 1979″ کے تحت ہوتی ہے۔ سیکرٹریٹ کے سربراہ چیف سیکرٹری اور ان کے ماتحت ہر محکمہ کا انتظامی سیکرٹری مقرر ہے۔ رولز آف بزنس کے تحت آزاد حکومت کے 24 انتظامی محکمے (سیکرٹریٹس) ہیں۔ سال 1989ء میں سول سیکرٹریٹ آزادکشمیر کی تنظیم نو ہوئی جس کے تحت سیکرٹریٹ کے چینل میں بڑے محکموں کے لئے ایڈیشنل سیکرٹری کا عہدہ شامل کیا گیا اور گزشتہ چند سالوں سے نصف درجن کے قریب سینئر ایڈیشنل سیکرٹری / سپیشل سیکرٹری کی آسامیاں بھی رکھی گئیں مگر ان کی ذمہ داریوں کا درست طور پر تعین / Interpretation نہ کئے جانے کے باعث گریڈ 20 کے ان سینئر آفیسران کی سروسز موجودہ شکل میں وسائل کا ضیاع اور Underutilized ہیں۔ نافذ العمل رولز آف بزنس و سیکرٹریٹ انسٹرکشنز پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہوتا جو کسی طور مفاد عامہ و سرکار میں نہیں ہے۔ تحت رولز ایک آفیسر کی میز پر 3 تا 5 دن سے زیادہ کوئی معاملہ زیر التواء نہیں رکھا جا سکتا جو ذمہ داریوں کی درست پریکٹس نہ ہونے کے باعث طوالت اختیار کر کے بیڈ گورننس اور عوامی شکایات اور حکومتی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
اس مرحلہ پر میں اپنا ایک ذاتی تجربہ قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ ہوا یوں کہ میری اہلیہ محترمہ کے ترقیابی کے ورکنگ پیپر کے لئے متعلقہ محکمہ نے محکمہ سروسز کے شعبہ رابطہ کو مڈ کیرئیر کورس (MCMC) کے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی تحریک کی۔ میں نے اس کے جلد حصول کے لئے فالواپ کیا۔ فائل معاون سے نگران۔سیکشن آفیسر۔ ڈپٹی سیکرٹری۔ ایڈیشنل سیکرٹری۔ سپیل سیکرٹری سے سیکرٹری تک اور اسی روٹ سے واپس شعبہ رابطہ تک پہنچنے اور کورنگ لیٹر کے مسودہ کی توثیق تک اثر و رسوخ کے باوجود 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ صرف ہوا۔ تصدیق جاری ہونے کے بعد ترقیابی کے ورکنگ پپیر اور یہ کہ گریڈ 19 کی آفیشیٹنگ ترقیابی سلیکشن بورڈ نمبر 1 یا چیئر مین سلیکشن بورڈ کس کی سفارش سے ہو گی مزید تقریباً 2 سال کا عرصہ لگا۔ ہماری رائے میں تحت رولز آف بزنس یہ سارا کام زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کا تھا جبکہ چہیتے اگر اہلیت پوری نہ بھی کرتے ہوں تو ان کی مشروط ترقیابی ہو جاتی ہے۔ بعد میں عموماً شرائط بھی پوری نہیں کی جاتیں۔
حالت یہ ہے کہ سیکرٹریٹ کے کسی افیسر سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے تو معاون سٹاف کا جواب ہوتا ہے کہ ”صاحب یا تو میٹنگ میں ہیں یا واش روم میں ہیں“۔ اگر کہا جائے کہ جب دستیاب ہوں تو بات کرا دیں مگر ایسا ہوتا نہیں کیونکہ پہلا جواب ہی درست نہیں ہوتا۔ اصولاً ہونا یہ چاہیے کہ دفتری اوقات کار میں ہر آفیسر کو کم از کم ایک گھنٹہ عوامی ملاقاتوں / رابطوں کے لئے مختص کرنا چاہیے جس پر عملدرآمد بھی ہو۔ اس پر سربراہ سیکرٹریٹ (چیف سیکرٹری صاحب) کو سختی سے عملدرآمد کرانا چاہیے۔ ماضی میں ہمارے ایک چیف سیکرٹری صاحب کہا کرتے تھے کہ دفتری اوقات کی پابندی آغاز دفتر و اختتام دفتر دونوں کے لئے ہوتی ہے اور جو آفیسر دفتری اوقات کے بعد بیٹھ کر کام کرتا ہے وہ یا تو نالائق ہوتا ہے یا دو نمبر کام کرتا ہے۔
سیکرٹریٹ انسٹرکشنز کے رولز 1 تا 67 معہ ضمیمہ جات A تا D سارے ہی ضروری ہیں مگر میں یہاں عوام الناس اور ہر Tier کے اپنے اپنے دائرہ کار کی آگاہی اور سختی سے پابندی کے لئے قاعدہ نمبر 10، 6، 7، 8اور 11 کو من و عن بذیل نقل کرنا چاہوں گا۔
” 10. All business of Government shall be conducted in accordance with the Rules of Business and these instructions”.
"6. An Additional Secretary or a Joint Secretary, unless he is incharge of a Departmnet, shall be intrusted with a well-defined sphere of duty. Within this sphere he shall assume full, responsibility and shall submit all cases direct to the Minister for orders, such cases being returned to him through the Secretary. The Secretary shall have the power, however, to call for any case for his own consideration and to request that he be consulted in any particular case before it is submitted to the Minister.”
"7. A Deputy Secretary shall dispose of all cases in which no major question of policy is involved or which under the rules or standing orderس he is competent to dispose of. ”
"8. A Section Officer shall dispose of all cases where there are clear precedents, and no question of deviation from such precedents is involved or which under the rules or standing orders he is competent to dispose of. In case of doubt he may seek verbal instructions from his superior officer. ”
"11. The following cases shall be submitted to the Secretary of the department:
(a) All cases, summaries and reports called for by the Prime Minister and the Cabinet.
(b) All cases involving major policy and important administrative issues.
(c) All cases of appointments or promotions that have to be referred to the Prime Minister, the Minister or the Selection Board.
(d) All cases involving foreign delegations and deputations abroad.
(e) All important cases relating to development plan, annual budget and foreign exchange requirements.
(f) All cases of transfers of Heads of Attached Departments and their deputies.
(g) References received from Federal / Provincial Governments.
Note: The above list may be added to where-ever necessary. This shall not apply to cases which, under Instruction 6. Joint Secretary or Additional Secretary will submit to the Minister direct. ”
سیکرٹریٹ انسٹرکشنز کی سیکشن 9 کے تحت معاون (Assistant) ہر کیس کے ریکارڈ کی ترتیب اور اس پر متعلقہ قانون و قواعد و رولز کی عکسی نقل رکھ کر متعلقہ سیکشن آفیسر کو پیش کرنے کا پابند ہے۔
آزاد حکومت میں معاملات کی ڈسپوزل / منظوری / احکامات کی حکومتی سمری بجائے مکمل فائل کی طرح پہلی بار 1993ء میں ڈالی گئی۔ ہوا یوں کہ مجھے وزیراعظم اور پرنسپل سیکرٹری صاحبان نے پنجاب سیکرٹریٹ اور فیڈرل سیکرٹریٹ میں بحیثیت ایڈیشنل سیکرٹری وزیراعظم سیکرٹریٹ بھیجا جس کی باقاعدہ سٹڈی کے بعد بجائے پوری فائل کے سمری حکومت کو پیش کرنے کی تجویز دی گئی۔ پہلے طریقہ یہ طے ہوا کہ پوری فائل وزیر محکمہ تک جائے گی اور ان کے اتفاق / ریمارکس کے بعد متعلقہ سیکرٹریٹ سے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو سمری بھیجی جائے گی۔ یہ طریقہ کار ٹھیک تھا مگر وزراء کرام نے تبدیل کرا کر سمری بذریعہ وزیر محکمہ وزیراعظم صاحب کو پیش کرنے کا طریقہ کار وضع کروا لیا۔ ابتداً وزیراعظم صاحب کی سمری پر زبانی منظوری پرنسپل سیکرٹری / سیکرٹری برائے وزیراعظم صاحبان کے دستخطوں و مہر سے جاری ہوا کرتی تھی جسے بعد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب سمری حکومت / سیکرٹری متعلقہ کی ہدایت پر مرتب ہوتی ہے اور نچلے افیسران کی آراء تحریری شکل میں شامل نہیں ہوتیں۔ ہم مفاد سرکار میں اس میں یہ ترمیم تجویز کرتے ہیں کہ سمری پر بھی سیکشن آفیسر Self Contained Note اور ایک بالا آفیسر کی آراء شامل ہونی چاہیے ورنہ ان کی تعیناتیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کی آراء کے بعد سیکرٹری / متعلقہ وزیر محکمہ کی رائے یا اتفاق آنا چاہیے۔
سینئر ایڈیشنل سیکرٹری / سپیشل سیکرٹری کا Tier اگرچہ سیکرٹریٹ انسٹرکشنز میں درج نہیں کیونکہ یہ جدید اضافہ ہے مگر یہ Tier ایڈیشنل سیکرٹری سے اوپر آتا ہے اور Administrative Department کی رولز آف بزنس میں دی گئی تعریف میں کور ہوتا ہے جسے Administrative Head(سیکرٹری) کے ساتھ Mix-up نہیں کیا جانا چاہیے۔ یوں اس حد تک کار سرکار کی ڈسپوزل اس طور ہو سکتی ہے کہ قاعدہ نمبر 6 اور 11 کی ذیل میں آنے والے معاملات کے علاوہ دیگر جملہ معاملات سیکشن آفیسر اور ڈپٹی سیکرٹری کی سطح سے سینئر ایڈیشنل سیکرٹری / سپیشل سیکرٹری کو ڈسپوزل کے لئے پیش ہوں جن کی جہاں تک ممکن ہو وہ خود منظوری دیں یا حکومت کو پیش کریں۔ سیکرٹریٹ انسٹرکشنز کی رو کے مطابق سیکرٹریٹ کے چینل کے دو آفیسران کی کسی معاملہ میں رول نمبر 6، 7، 8 کو ملحوظ رکھ کر نوٹنگ ہو اور ان سے بالا افیسر کا فیصلہ ہو۔ ان دو میں سے بھی سیکشن آفیسر کا Self Contained Noteلازمی ہو۔ مفاد عامہ میں عمومی معاملات کی ڈسپوزل لازمی طور 3 تا 5 دن کے اندر ہو جبکہ ایمرجنسی کے معاملات کی ڈسپوزل فوری کی جائے۔ متعلقہ آفیسران جو اپنی سرکاری و منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے میں پہلو تہی کریں ان کے خلاف "Ommission of an Act” کی کارروائی "Commission of an Illegal Act” کی طرح ہی ہو۔ اگر تربیت یافتہ بیوروکریسی اپنا کام درست کرے گی تو حکومت کے علاوہ اس کی عزت اور نیک نامی بھی ہو گی۔
امید ہے ہماری آراء کو سنجیدگی سے لیا جائے گا اور چیف سیکرٹری صاحب بطور نمائندہ وفاقی حکومت (جو مسئلہ کشمیر کے حل تک "UNCIP Resolutions” کے تحت آزادکشمیر میں گڈ گورننس کے ذمہ دار ہیں) اپنی ذمہ داریوں کو یقینی بنائیں گے اور ہماری ان مخلصانہ آراء کو اپنی کابینہ (سیکرٹریز میٹنگ) میں زیر غور لا کر قرارداد جاری کرائیں گے تاکہ آفیسران کو اپنے اپنے دائرہ کار میں اختیارات کے استعمال کا حوصلہ مل سکے اور تحت موجودہ پریکٹس ایک کیس پر ایک درجن سے زیادہ آفیسران / اہلکاران کے دستخط نہ ہونے پائیں جو ذمہ داریاں شفٹ کرنے کا غیر قانونی طریقہ ہے۔

Related Articles

Back to top button