ن لیگ کی بے منطق سیاست

آزاد خطہ کی سیاست ہمیشہ سے ایک الجھن کا شیش محل رہی ہے، جہاں ہر شیشہ اپنی ہی تصویر دکھاتا ہے، لیکن گزشتہ چند ماہ میں مسلم لیگ ن نے جو کچھ کیا، اس نے شیش محل کو بھی توڑ کر رکھ دیا۔ بات سادہ سی ہے، مگر اتنی عجیب کہ سن کر کوئی یقین نہیں کرتا۔ اڑھائی سال تک یہ جماعت چوہدری انوار الحق کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتی رہی، ان کی ہر بات پر سر ہلاتی رہی، کابینہ میں بیٹھی رہی، ترقیاتی فنڈز بانٹتی رہی، تصاویر کھنچواتی رہی، اور جب تحریکِ عدم اعتماد کا وقت آیا تو یہی ہاتھ اٹھا کر انوار الحق صاحب کو گھر بھیج دیا۔ اب وہی جماعت اپوزیشن کی بنچوں پر بیٹھی ہے۔ نہ شرم، نہ حیا، نہ کوئی جواز، نہ کوئی وضاحت۔ بس ہو گیا۔
یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ جس آدمی کو خود وزیراعظم بنایا، جس کے ساتھ دو سال سے زیادہ عرصہ وزارتیں لیں، جس کی ہر پریس کانفرنس میں اپنے لیڈر کھڑے کر کے واہ واہ کروائی، آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ“حکومت ناکام ہو چکی تھی”۔ بھائی، ناکام تو پہلے دن سے تھی یا آخری دن جا کر اچانک ہو گئی؟ اگر پہلے دن سے ناکام تھی تو اڑھائی سال کیوں ساتھ رہے اور اگر آخری دن جا کر ناکام ہوئی تو پھر دو سال تک تعریفوں کے پل باندھنے کا ڈرامہ کیا تھا؟ یہ سوال عام آدمی کے ذہن میں گھوم رہے ہیں، اور مسلم لیگ ن کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں۔
بات 2023 سے شروع ہوئی جب سردار تنویر الیاس کو نااہل کیا گیا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ہاتھ ملا کر چوہدری انوار الحق کو وزیراعظم بنوایا۔ یہ ایک مخلوط حکومت تھی، اور ن لیگ اس میں خوش تھی۔ وزارتیں ملیں، ترقیاتی پیکج ملے، فنڈز ملے، پروٹوکول ملا۔ شاہ غلام قادر، چوہدری محمد یاسین، سب خوش میڈیا پر بیانات، ریلیاں، جلسے، سب میں ایک ہی نعرہ تھا کہ“ہم نے آزاد کشمیر کو بچا لیا”۔ پھر اچانک 2025 میں ہوا کا رخ بدلا۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ چوہدری انوار الحق سے کام نہیں چل رہا۔ تحریکِ عدم اعتماد لے آئے۔ اور مسلم لیگ ن نے فوراً کہا ”ہم بھی ساتھ ہیں ”
لوگ حیران رہ گئے۔ جس آدمی کے ساتھ دو سال سے زیادہ عرصہ حکومت چلائی، اچانک دشمن کیسے ہو گیا؟ ن لیگ کے کچھ لوگ اب کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ہمیں دھوکا دیا، کچھ کہتے ہیں کہ چوہدری انوار الحق نے وعدے پورے نہیں کیے۔ لیکن کوئی ایک آدمی بھی یہ نہیں بتا سکا کہ آخر وہ کون سے وعدے تھے جو توڑے گئے؟ کوئی ایک پالیسی بتا دیں جس پر اختلاف ہوا؟ کوئی ایک فیصلہ بتا دیں جس نے ن لیگ کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم کے خلاف کھڑی ہو جائے؟ جواب صفر۔ صرف خاموشی، اور گھمبیر چہرے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام آباد سے آیا۔ جب مرکز میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک ہی حکومت میں تھیں، تو آزاد کشمیر میں بھی دونوں کو ایک پیج پر رہنے کا حکم ہوا۔ جب پیپلز پارٹی نے چوہدری انوار الحق کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو ن لیگ کے پاس دو آپشن تھے، یا تو پیپلز پارٹی سے الگ ہو کر تنہا کھڑی ہو جائے، یا پھر ساتھ چل پڑے۔ تنہا کھڑی ہونے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ اس کا مطلب تھا حکومت سے باہر ہو جانا اور اگلے الیکشن میں صفایا۔ تو لالچ نے ہاتھ اٹھوا دیا۔ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی، چوہدری انوار الحق گھر گئے، پیپلز پارٹی والا وزیراعظم بن گیا، اور ن لیگ کو وزارتوں کا جو حصہ ملا وہ بھی چھوٹا سا۔ اب جب کچھ نہ ملا تو کہہ دیا کہ“ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے”۔ یعنی نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔
یہ سیاست نہیں، ڈھٹائی ہے۔ عوام میں غصہ ہے۔ مظفرآباد سے لیکر میرپور تک ہر جگہ ایک ہی بات۔“ہم نے جماعت کو ووٹ دیا تھا، لیڈروں کو نہیں ”۔ نوجوان کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سوچا تھا ن لیگ اصولوں والی جماعت ہے، لیکن یہ تو عہدوں کے لیے کچھ بھی کر گزرے۔ چائے خانوں میں بیٹھے بزرگ کہتے ہیں،“پہلے تو کم از کم شرم ہوتی تھی، اب تو کھلے عام دھوکا دیتے ہیں ”۔ سوشل میڈیا پر میمز کی بھرمار ہے،
سب سے بڑا نقصان ن لیگ کی ساکھ کا ہوا۔ جو جماعت کبھی آزاد کشمیر میں مضبوط ترین سمجھی جاتی تھی، آج لوگ اس کا نام لینے سے شرما رہے ہیں۔ اگلا الیکشن جب بھی ہو، یہ واقعہ ضرور اچھالا جائے گا۔ پی ٹی آئی والے تو پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی خاموشی سے مسکرا رہی ہے کہ استعمال کر کے پھینک دیا۔ اور ن لیگ؟ ن لیگ ابھی تک وضاحت تلاش کر رہی ہے کہ آخر ہوا کیا تھا۔
آخر میں صرف ایک بات کہوں گا۔ سیاست مفادات کی ہوتی ہے، یہ سب جانتے ہیں، لیکن مفادات کے لیے اگر ہر بار اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم کو گھر بھیج دو، اپنے ہی وعدوں سے مکر جاؤ، اپنے ہی ووٹروں کے منہ پر طمانچہ مار دو، تو پھر ایک دن ووٹر بھی آپ کے منہ پر طمانچہ مارے گا، اور وہ طمانچہ الیکشن کے دن ووٹ کی شکل میں آئے گا۔
مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے رہنماؤں کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ سیاست مفادات کی ہوتی ہے، لیکن اس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر ہر بار اقتدار کے لیے حلیفوں کو دھوکا دیا جائے گا، اصولوں کو روندا جائے گا، تو آخر کار جماعت کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ آزاد کشمیر کے لوگ اصولوں والی سیاست دیکھنا چاہتے ہیں، ڈرامے نہیں۔
اگر مسلم لیگ (ن) نے اب بھی اپنی غلطی نہ سدھاری، اپنے ورکروں اور ووٹروں سے معافی نہ مانگی، اور ایک واضح سیاسی لائن نہ اپنائی تو آنے والے دن اس کے لیے بہت مشکل ہوں گے۔ کیونکہ عوام سب دیکھ رہی ہے، اور یاد رکھتی بھی ہے۔




