
قارئین! چمچے کے لفظ سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔اور لوٹے سے تو آپ کا روز واسطہ پڑتا ہے اس لئے اس بارے میں زیادہ استسفار بے معنی ہے۔ لوٹے سے ہاتھ،منہ،سر اور بعض پرائیویٹ پارٹس کی صفائی کا کام لیا جاتا ہے جس کا تذکرہ اردو جیسی مہذب زبان میں کھلے عام تحریر کرنا بے ادبی کے ضمرے میں آتا ہے۔ویسے چمچے اور لوٹے بڑے کام کی چیزیں ہیں۔ ان کے بغیر نہ کھایا پیا جا سکتا ہے اور نہ کھا پی کر صفائی ستھرائی کی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے لوٹے او چمچے ہماری زندگیوں کا جزو لازم ہیں۔ان کی اہمیت انتخابات کے دوران بہت زیادہ ہو جاتی ہے اور دو دو ٹکے کے لوٹے اور چمچے کروڑوں روپوں میں بکتے ہیں۔چمچے کی انگریزی spoonہے،لیکن بد قسمتی سے میری انگریزی کمزور ہے اس لئے لوٹے کی انگریزی مجھے نہیں اآتی لیکن اتنا ضعور جانتا ہوں کہ لوٹا جتنا زیادہ چالو ہوگا اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ لگتی ہے۔۔چمچے یا چمچوں کے بہت سے استعمال ہیں جو ہم روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں۔چمچے کسی کی ملکیت نہیں ہوتے اور جو چمچے کسی کی ملکیت ہوں وہ چمچے نہیں ہوتے۔چمچوں سے کھانا کھایا جاتا ہے اور اگر یہ بڑے سائز کے ہوں تو اس سے دیگ بھی پکائی جا سکتی ہے۔جس غریب یا نادار کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ ہو تو وہ خالی پلیٹ پر چمچے سے بطور musical instrument کا کام لے سکتا ہے۔چمچے سے کان کے اندر کا میل صاف کیا جا سکتا ہے۔المختصر چمچے سے اعلیٰ قسم کی مرغن غذاؤں سے لے کر دیسی سبزی تک کھائی جا سکتی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا اوٹ پٹانگ جملہ بازیاں کر رہا ہوں۔لیکن میرے کالم کے اختتام پر آپ کی رائے یقینناً بدل چکی ہو گی۔کیوں کہ میں آج روائیتی اور عام استعمال کے چمچوں سے ہٹ کر تحریر کروں گا۔میرا آج کا اصل موضوع سیاسی چمچے اور لوٹے ہیں۔سیاست کی اصطلاح میں چمچہ اسے کہا جاتا ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفا دار ہو۔میں بہت سے چمچوں کے نام گنوا سکتا ہوں لیکن اس لئے پردہ رکھ رہا ہوں کیوں کہ اللہ کریم نے دوسروں کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے عمل کو پسند فرمایا ہے۔
بات ہو رہی ہے سیاسی چمچوں کی تو میں آپ تک ان کی خصوصیات من و عن بیان کرنے کی سعی کروں گا۔اگر آپ کو کوئی اعتراض ہو یا آپ کو اچھا لگے تو خاکسار 03009148820پر آپ کو جوابدہ ہونے کا پابند ہے۔میں آپ کی قیمتی آراء کا منتظر رہوں گا،اور آپ کی تجاویز میرے لئے زور قلم میں اضافہ کا باعث ثابت ہوں گی۔
سیاسی چمچے کی حیثیت مالشی پالشی اور خوشامدی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتی۔یہ حضرات لوگوں کے سامنے معزز شمار کئے جاتے ہیں۔مگر اپنے نام نہاد آقاؤں کے سامنے گیدڑ کی طرح دم دبائے رہتے ہیں۔ان کی زندگی کا مقصد اپنے آقاؤں کی تعریف اور چاپلوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔چمچے اور لوٹے دونوں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ہوتے ہیں۔لیکن جب ان کا مالک بدل جاتا ہے تو یہ پہلے والے آقا کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
اکثر چمچے ان پڑھ یا نا خواندہ ہوتے ہیں۔اور اگر خدا نخواستہ کوئی پڑھا لکھا چمچہ بننے کی کوشش کرے تو وہ اچھا چمچہ نہیں بن پاتا۔سیاسی چمچے ہر گاؤں ہر گلی اور ہر محلے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ان کا ایک کام یہ بھی ہے کہ اپنے آقاؤں کی شہ پر غریب عوام کو لڑاتے ہیں اور خود ہی منصفی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ان کی خاص پہچان یہ ہوتی ہے کہ یہ کالے رنگ کی ویسٹ کوٹ پہنتے ہیں۔اور اکثر سفید رنگ کے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ان کے چہروں کی خباثت اور مکاری ایک کلو میٹر دور سے دیکھ کر محسوس کی جا سکتی ہے۔دیگر برے کاموں کے علاوہ ایک کام یہ بھی کرتے ہیں کہ حق دار کو کبھی بھی حق نہیں لینے دیتے۔اور میرٹ کی پامالی میں اپنے سرداروں کی منت سماجت اورجوتیاں چاٹ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کے صاحب جمہوں نے قیمت چکا کر چمچوں اور لوٹوں کو خریدا ہوتا ہے اگر کہیں کہ گدھا حاملہ ہے تو کہتے ہیں ہاں جی ہاں اگلے دو چار روز میں بچہ دے دے گا۔ان کے ہاتھ میں ایک نفیس رومال ہوتا ہے جسے عوام کے لئے فخر کی علامت کے طور پر یہ چمچے بار بار ہاتھ میں لے کر نمائش کرتے رہتے ہیں۔لیکن اپنے صاحب کے لئے اسی ریشمی رومال سے موقع تاک کر جوتے تک صاف کر دیتے ہیں۔
سیاسی چمچوں کی بڑی شان و شوکت ہوتی ہے۔لاکھ ڈیڑھ لاکھ سے لے کر دس بیس ہزار روپے کی ترقیاتی سکیمیں یہ اپنے ابا جی کا مال سمجھ کر ڈکار جاتے ہیں۔ان سیا سی چمچوں کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی۔یہ چھوٹی موٹی سکیموں سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ دوزخ کے انگاروں سے بھرتے رہتے ہیں۔اور جب سکیموں یا منافع فنڈ کے پیسے ان کے پاس سے ختم ہو جاتے ہیں تو ان کی حالت بازار کے آوارہ بھوکے کتے جیسی ہو جاتی ہے۔کیوں کہ جب کسی کتے کے منہ سے ہڈی چھن جائے تو وہ بھی بے بس اور لا چار ہو جاتا ہے۔بعینہہ ان سے جب قومی خزانے کی رقم ختم ہو جائے تو یہ کچھ عرصے کے لئے مالک کو بھول کر بھوکے اور نڈھال کتے کی مانند اپنی اپنی کھولی میں گھس جاتے ہیں۔
قارئین! کالم طویل ہو رہا ہے،آخر میں اس بات پر ختم کروں گا کہ اگر آپ ملک کے اندر صاف ستھری اور کرپشن سے پاک سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان چمچوں اور لوٹوں کا قلع قمع کریں۔کیوں کی یہ برائی کی جڑ ہیں۔ان کو دنیا کے سامنے ان کے اصلی روپ میں لائیں تا کہ لوگوں کو ان کی اصلیت کا علم ہو لیکن اگر آپ نے سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کالے ویسٹ کوٹ والے حضرات کے پیچھے آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کرنا ہے تو آپ کی مرضی۔پھر آپ کے اوپر ہمیشہ ایسے ہی لوگ مسلط رہیں گے اور آپ حق و انصاف نہ ملنے کا رونا روتے رہیں گے۔اللہ آپ کو ان سیاسی چمچوں اور لوٹوں کے چنگل سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
جب تک ان بظاہر معزز چمچوں اور لوٹوں کے منہ سے ان کے مالک ہڈی چھین لین تو بعید نہیں کہ یہ اپنے مالک کو ہی چیر پھاڑ کر نہ رکھ دیں۔ ان دونوں کی ایک خاص صفت یہ نھی ہے کہ یہ کسی کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہوتے۔ جو بھی انہیں نوٹ دکھا دے فوعا ان کا موڈ بن جاتا ہے اور جب تک ان کی جیب بھری ہوتی ہے تب تک یہ مخلص اور وفادار کتے کی طرح اپنے مالک کے ساتھ پیوستہ رہتے ہیں۔ لیکن جونہی ان کا خرچہ پانی بند ہویا ہے تو یہ کسی دوسری تگڑی آسامی کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ اب آخر میں اس بات پر اختتامیہ کرتا ہوں کہ خدا راہ لوٹوں اور چمچوں سے تقریبا100کلو میٹر دور رہیں، ورنہ نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہو گی، میں نے واشگاف الفاظ میں مطلع کر دیا ہے، پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اوع ساعی قوم کو لوٹوں اور چمچوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔




