
.. کسی بھی ملک کا نظامِ حکومت وہاں کے معاشریکا عکاس ہوتا ہے۔ حکومت اگر عوامی حقوق بحال کرتے ہوئے غریب طبقات کو غربت سے باہر نکال کر انہیں ایک باعزت زندگی مہیا کرتی ہے جہاں ہر شخص کو روٹی کپڑا مکان تعلیم و صحت کی سہولتیں حاصل ہوں۔ رزق کیلئے کوئی انسان دوسرے انسان کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے۔اقبال کے بقول۔
. کس نباشد در جہاں محتاج کس۔
نقط? شرعِ مبیں ایں است و بس۔۔
تو صرف ایسے ملک کو سلامتی کی ریاست کہا جا سکتا ہے۔کسی بھی ملک میں اسلامی نظام کی موجودگی صرف اس بنیاد پر پر تسلیم کی جائے گی کہ کیا وہاں کوئی انسان اپنی ضروریات زندگی کیلئے دوسرے انسان کے آگے ہاتھ تو نہیں پھیلا رہا؟
جہاں سرمایہ دار مختلف حیلوں بہانوں سے غریب عوام کا خون چوسیں؛ جاگیروں میں غلام مظلوموں کی صدائیں ہواؤں میں تحلیل ہو جائیں؛ حکمران عوام کے نام پر سبسیڈی ٹیکس ایمنسٹی۔امپورٹ ایکسپورٹ مراعات کے نام پر سالانہ سترہ ارب ڈالرز کی مراعات کے ذریعہ حکومتی خزانے لوٹیں۔بجلی کی پرائیویٹ کمپنیاں سالانہ کھرب ہاء روپے کا عوام کو چونا لگائیں تو وہاں کی جمہوریت عوامی جمہوریت نہیں کہلائی گی بلکہ وہ بد معاشیہ کی جمہورت کہلائے کی۔وہاں عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر ووٹ ڈالنے کیلئے لایا جاتا ہے۔ اس کے بعد عوام غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں اور حکمرانوں کی آقائیت قائم ہو جاتی ہے جو صرف بالا دست طبقات کے مفادات کیلئے دن رات ایک کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ کیسی ترقی ہے کہ ملک کی ترقی کے اعشاریے تو اوپر جا رہے ہیں لیکن غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ظالمانہ معاشی اور سماجی نظام کی موجودگی میں چلنے والی جمہوریت عوام کے ساتھ ایک بڑا فراڈ ہے اسی لئے اقبال ایک عوامی جمہوریت کا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
. اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔
کاخِ امراء کے درد و دیوار ہلا دو۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی۔
اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دہ۔
سلطانئی جمہور کا آتا ہے زمانہ۔
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو۔
.. نظام جاگیرداری جس کے متعلق اقبال نے الارض للہ کے عنوان سے نظم لکھی اور جاگیرداروں کو کہا کہ زمین خدا کی ہے اور خلقِ خدا سب اس میں برابر کے حصہ دار ہے۔ چند بدمعاش انگریزوں کے کتے نہلانے والے مسلمانوں سے غداری کے عوض اس کے مالک نہیں بن سکتے اور قائداعظم نے جون 1943 میں دہلی میں مسلم لیگ کے اجلاس میں کہا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد اگر جاگیرداری نظام ختم نہیں ہوتا تو انہیں ایسے پاکستان کی ضرورت نہیں۔پاکستان کے مظلوم اور محکوم لوگ جب تک استحصالی طبقات سے آزادی حاصل نہیں کرتے اس وقت تک اسے اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان نہیں کہہ سکتے اور یہ مجلسِ آئین ہو یا نام نہاد جمہوریت سرمایہ داروں جاگیرداروں اور دیگر بالا دست طبقات کی لونڈی کے سوا کچھ نہیں جو صرف استحصالی بالادست طبقات کی خدمت پر مامور ہیں۔
ہم جمہوریت کے بارے میں اقبال کی نظم و نثر دونوں کو پڑھیں تو ثابت ہوتا ہے کہ اقبال اس جمہورت کو جو عوامی حقوق کی محافظ ہے اسے روحای جمہوریت کہتے ہیں جوخلق خدا کیلئے مساوات انسانی اور عوامی حقوق کی گارنٹی دیتی ہے۔ایسی جمہوریت جس میں طاقت اور سرمایے کے زور پر صرف امیر، جاگیردار، بدمعاش اشرافیائی طبقات کے ہاتھوں عام لوگوں کے استحصال پر مبنی ہو اور سرمایہ کے زور پر یہی لوگ اسمبلیوں میں جا سکیں اور وہ وہاں اپنے مقتدر طبقات کے مفادات کا ہی تحفظ کریں وہ نظام حکومت جمہوریت نہیں کہلا سکتا۔ جہاں جمہوریت اشرافیہ کی لونڈی ہو سامراجی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہو وہاں اقبال کہتا ہے کہ
۔۔۔۔۔مجلسِ آئین ہو یا پرویز کا دربار ہو۔
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہے جس کی نظر۔



