
“”یہ کالم آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کے لاک ڈاؤن اعلان اور وفاقی مذاکراتی ٹیم کی ناکامی کے پس منظر میں عوامی بے چینی، سیاسی مضمرات اور مستقبل کے امکانات پر ایک سنجیدہ تجزیہ ہے-“””
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں 29 ستمبر سے لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن کی اپیل سے پہلے 25 تاریخ کو دو وفاقی وزرا، بیرو کریسی اور آزاد کشمیر حکومت کے نمائیندہ ٹیم کی ایکشن کمیٹی کی نمائیندہ قیادت کے ساتھ مذاکرات کامیابی سے ناکام ہوئے – کامیاب ایسے کہ 8 دسمبر 2024 کے معائدے پر مبنی 4 فروری 2024 کے نو ٹیفکیشن کی روشنی میں سارے مطالپات پر عملدر آمد کرنا مان لیا گیا – ناکام ایسے کہ اس عرصہ کے دوران اشرافیہ کی مراعات اور کشمیری مہاجریں مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائیندگی اور کوٹہ کے خلاف شدید عوامی جذبات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی وزراء نے یہ فقرے کسے کہ“ یہ مقبوضہ کشمیر کے ان بہنُ بھائیوں کو یہ پیغام تھا کہ ہم آپ کی حیثیت اور قربانئیوں کی نفی کرتے ہیں“ ساتھ ہی یہ بھی اسی سانس میں کہا کہ“ موجودہ حالت میں انڈیا پاکستان جنگ کے بعد کشمیر کاز کو عالمی سطح پر جو فو قیت ملی بعض لوگوں سے ہضم نہیں ہورہی“-(روز نامہ سیاست مورخہ 26 ستمبر2025) کمیٹی کی اپیل پر سابقہ مظاہرے محض احتجاجی مظاہرہ نہیں تھے، بلکہ یہ عوامی بے چینی اور ریاستی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا ایک اجتماعی اعلان تھے۔ اس
کال پر جس طرح کاروبارِ زندگی معطل ہوا، اس نے ثابت کر دیا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور آئین کی روح کے خلاف مطالبوں کو نہ ماننا یا کسی بہتر طریقہ سے موخر کرنا یا مشروط کرنے کے بجائے طنزیہ فقرے کسنا وفاقی مذاکراتی ٹیم کی کم سنی ہی کہی جا سکتی ہے جس وجہ سے مذاکرات کی ناکامی نے صورتِ حال کو مزید سنگین بنا دیا۔ عوام یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وفاقی ادارے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے وقت گزاری پر اکتفا کر رہے ہیں۔
مذاکراتی ٹیم کی ناکامی، اس کے اثرات اور راہ عمل وفاقی حکومت کی جانب سے جو مذاکراتی ٹیم آزاد کشمیر بھیجی گئی تھی، اس سے عوام کو بڑی توقعات تھیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ ٹیم ٹھوس اور نتیجہ خیز لائحہ عمل دینے کے بجائے روایتی وعدوں اور بیانات تک محدود رہی۔ اس ناکامی کے چند بڑے اثرات سامنے آئے:
1.اعتماد کا مزید ٹوٹ جانا: عوام اور قیادت دونوں نے محسوس کیا کہ وفاقی سطح پر ان کے مسائل کو اصل اہمیت نہیں دی جا رہی بلکہ آزاد کشمیر کے عوام کے concerns کو کو ء اہمیت نہیں دیتے –
2.کمیٹی کی پوزیشن مضبوط ہونا: مذاکرات ناکام ہونے کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی مزید بااعتماد اور سخت گیر نظر آنے لگی۔
3. سیاسی خلا کا بڑھنا: جب وفاقی نمائندے ناکام ہو کر واپس گئے تو عوام کو محسوس ہوا کہ ان کے اور وفاق کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں جو آزاد کشمیر کی عوام کو subject ہی سمجھتے ہیں پاکستان کے شہریوں جیسا نہیں سمجھتے –
4.غصہ اور بے چینی میں اضافہ: عوامی سطح پر یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ اب حقوق کے حصول کے لیے سخت دباؤ ہی واحد راستہ ہے۔
لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن کی سیاست
لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن ہمارے خطے کی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ حکمرانوں کو جھنجھوڑنے اور عوامی طاقت کے اظہار کا ایک حربہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر عوام کمیٹی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں بے چینی اس قدر گہری ہے کہ وہ وقتی نقصان کو بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ یہی عوامی دباؤ دراصل حکومت کو جھکنے پر مجبور کرتا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے کیا پایا؟
مذاکراتی ناکامی کے باوجود کمیٹی نے اس احتجاج سے کئی اہم کامیابیاں سمیٹیں:
•عوامی حمایت کا مظاہرہ: عوام نے لبیک کہہ کر کمیٹی کی ساکھ مستحکم کر دی۔
•سیاسی مرکزیت حاصل کرنا: کمیٹی ایک ایسے فورم میں ڈھل گئی ہے جہاں عوام اپنی اجتماعی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
•حکومتی دباؤ میں اضافہ: حکومت اب ان مطالبات کو آسانی سے نظرانداز نہیں کر سکتی۔
•بیانیے کی کامیابی: کمیٹی نے یہ تاثر قائم کر دیا کہ عوامی مسائل کا واحد حل اسی پلیٹ فارم سے نکل سکتا ہے۔
کیا کمیٹی کو نقصان بھی ہوا؟
جہاں فائدے ہیں، وہاں نقصان بھی نظر آتے ہیں۔ کاروباری طبقہ مالی نقصان اٹھا رہا ہے، روزانہ اجرت والے طبقات کے چولہے ٹھنڈے ہیں، اور حکومت کے ساتھ مذاکرات ٹوٹنے سے یہ تاثر بھی بڑھا ہے کہ کمیٹی ابھی تک عملی حل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہی وہ پہلو ہے جو مستقبل میں عوامی اعتماد کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔
مستقبل کی سیاست کا سوال
اہم سوال یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی وقتی احتجاج تک محدود رہے گی یا پھر یہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک نئی لہر بننے جا رہی ہے؟
اگر قیادت نے اتحاد برقرار رکھا، ذاتی مفادات سے بلند ہو کر عوامی مسائل کو ترجیح دی، اور سودے بازی سے گریز کیا تو یہ کمیٹی ایک مستقل عوامی دباؤ گروپ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ بھی ماضی کی عارضی تحریکوں کی طرح وقت کے ساتھ تحلیل ہو جائے گی۔
وفاقی حکومت کی ذمہ داری
وفاقی حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر عوام بنیادی ضروریات اور اس علاقے کے لوگواں کے وسیع تر مفاد، حقوق اور تشخص کے لیے بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں تو یہ محض احتجاج نہیں بلکہ نظام کی ناکامی کا اعلان ہے۔ اب محض نمائشی ٹیمیں بھیجنے اور وعدوں کے ذریعے وقت گزارنے کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کو سنجیدگی سے سنا جائے، قابلِ عمل روڈ میپ دیا جائے اور ایسے فیصلے کیے جائیں جو عوام کے دکھ کم کریں۔ اگر یہ موقع بھی ضائع ہو گیا تو مستقبل میں احتجاج زیادہ سخت اور بے قابو ہو سکتا ہے-
طرز تخا طب
وفاقی وزراء کا یہ کہنا کہ“ مقبوضہ کشمیر کے ان بہنُ بھائیوں کو یہ پیغام کہ ہم آپ کی حیثیت اور قربانئیوں کی نفی کرتے ہیں“ آزاد کشمیر کے لوگوں کے مطالبے کو یہ کہنے کے مترادف ہے کہ“ ہم آپ کی قربانیوں سے لئے گئے علاقے اور ستتہر سال سے سرحد پر افواج پاکستان کے ساتھ مسلسل سیسا پلاء دیوار کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں مستقل آباد ہونے والے بھائیوں کو آپ پر فوقیت دیتے ہیں گوکہ وہاں ان کی حیثیت باقی پاکستانیوں جیسی ہے -“
ساتھ ہی یہ کہنا کہ“ موجودہ حالت میں انڈیا پاکستان جنگ کے بعد کشمیر کاز کو عالمی سطح پر جو فو قیت ملی بعض لوگوں سے ہضم نہیں ہورہی“- اس مفروضے کے برابر ہے جو ایک جعلی سائفر، ایکشن کمیٹی سے منسوب کر کے اس کو وطن دشمن کہنے کی مذموم کوشش ہے، جس کی دونوں وزرا صاحبان نے کمیٹی کے اجلاس میں مسترد کیا تھا –
میں عوامی ایکشن کمیٹی کو بھی حکیمانہ غور خوض کے لئے یہ تجویز پیش کرتا ہو کہ پاکستان کا آئینی حصہ اور شہری ہوئے بغیر ٹکڑے ٹکڑے کر کے مطالبے کرنا اور حکومت اور عوام کو مغلوب کرنے کے بجائے پاکستان کے آئین کے اندر با وقار حیثیت لینے کے لئے اپنی پوزیشن واضع رکھیں اور غیر مبہم طور سامنے آئیں ُ جس کے لئے پاکستان اور آزاد کشمیر کے آئین کے اندر سمندر سے گہری گنجائش موجود ہے –
میں وفاقی وزراء سے بھی ملتمس ہوں کہ حضور آپ آزاد کشمیر اور باقی سارے ملک کی جیلوں میں مبینہ پاکستان دشمنوں یا غیر ملکی ایجنٹوں کا تناسب دیکھ کے فیصلہ کریں یہ خوشی کس کو ہوء یا ہو سکتی ہے – ان میں اکثریت پاکستان کے شہریوں کی ہے یا ریاستی باشندوں کی؟ یہ بات بھی زہن میں رکھیں آپ کو ملک ایک قانونی عمل سے تقسیم ہوکے ٹوکری میں رکھ کر دیا گیا ہے، ہم نے آزاد کر کے آپ کے سپرد کیا ہے – کم از کم طرز تخاطب تو عہدے کی مناسبت سے رکھیں –
اس پس منظر میں مسئلے کا حل یوں تجویز کرتا ہوں کہ آزاد کشمیر بھر میں اس مطالبے پر ریفرنڈم کرایا جائے کہ ؛
الف)“ کیا اسمبلی کی یہ نشستیں اور کوٹہ پاکستان کی نیشلٹی کے حامل ریاستی باشندوں کے لئے جاری رکھی جائیں؟
ب) کیا آزاد کشمیر کو سلامتی کونسل / یو این چارٹر کے تحت حق خود ارادیت کے حصول تک پاکستان کا آئینی حصہ بنائے بغیر صوباء حقوق اور زمہ داریاں دی جائیں؟
اختتامیہ
عوامی ایکشن کمیٹی کا گزشتہ لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن اور آج کا جذبہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ وفاقی مذاکراتی ٹیم کی ناکامی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوامی مسائل کو محض بیانات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ کمیٹی نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے، لیکن اصل امتحان ابھی باقی ہے: کیا یہ تحریک ایک مستقل عوامی سیاست میں ڈھلے گی یا وقتی احتجاج کی صورت میں تحلیل ہو جائے گی؟
فیصلہ کمیٹی کی قیادت اور وفاقی حکومت دونوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ موقع گنوا دیا گیا تو عوام کا صبر ٹوٹ کر غصے میں بدل جائے گا، اور اس کے نتائج سنبھالنا نہ کمیٹی کے لیے آسان ہوگا نہ حکومت کے لیے۔