
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی کی فضاء قائم کر رکھی ہے بھارتی افواج کی ظالمانہ ہتھکنڈوں اور ظلم و جبر کے باوجود کشمیری اپنے حق خودارادیت کے مطالبہ سے ایک اینچ پیچھے نہیں ہٹے گا بھارت نوشتہ دیوار پڑھ لے اور تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے پاکستان اور آ زاد کشمیر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی اخلاقی سفارتی حمایت جاری رکھے گا 78 سال پہلے اس دن بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پہ قبضہ کے لیے اپنی فوجیں سرینگر میں اتاری تھیں جو کہ بھارت کاظلم وجبر ابھی بھی جاری ہے,عالمی برادری سے وعدوں اور جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشتگردی کی فضاء قائم کر رکھی ہے اور بھارت اپنے وعدے پورے کرنے سے انکاری ہے، 8 جولائی کو نوجوان کشمیری رہنما برہان وانی کی ماورائے عدالت شہادت کے بعد بھارتی قابض افواج نے ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کر دیے ہیں، کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کی انتہا کر دی، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف پاکستان اور آ زاد کشمیر بھر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے وزیراعظم آ زاد کشمیر چوہدری انوار الحق کی ھدایات پر مناے جانے والے اس دن کے موقع پر سرکاری ملازمین اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں 1989 میں بھارتی کشمیر میں مسلم شورش شروع ہونے کے بعد آزادی پسند جماعتوں کی اپیل پر ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ اور یوم احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج نے بین الاقوامی قانون اور متحدہ بھارت کی تقسیم کے منصوبے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سری نگر میں اپنی فوج اتاری تھی جس نے دینا بھر کے اسلامی ممالک اور آ زاد کشمیر میں احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں جموں و کشمیر کے عوام 78 سالوں سے بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور آ زادی کی جہدوجہد میں شامل ہیں انہیں بدترین قسم کی بھارتی دہشت گردی کا سامنا ہے انہوں نے بڑی جرات کے ساتھ بھارتی محکومی اور مظالم کا مقابلہ کیا ہے اور نئی دہلء انہیں ڈرانے دھمکانے میں ناکام رہی ہے 27 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے اترنے سے عوام کیدکھوں کا آ غاز ہوا اسلیے دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کشمیری رہتے ہیں اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان نے 1947 میں آ زادی کے قانون اور تقسیم کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ انڈین برٹش کالونی دو خود مختار ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گی اس نے اپنی فوجیں جموں وکشمیر میں بھیجیں بھارت نے حیدرآباد جونا گڑھ اور جموں وکشمیر کی ریاستوں پر زبردستی قبضہ کیا پہلی دو ہندوؤں اکثریتی ریاستیں ہیں جن میں مسلم آباد ہیں ہندوستانی حکومت اور مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق کا آ لہ رکھنے کا دعوی کیا تھا لیکن بہت سے عالمی مورخین ایسی کسی بھی دستاویز کے وجود کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کرتے ہیں کہ اگر یہ موجود ہوتی تو ہندوستانی حکومت اسے سرکاری طور پر یا کسی بین الاقوامی فورم پر عام کرتی ایسا کبھی نہیں ہوا بدقسمتی سے برطانوی بیرسٹر ریڈ کلف کی سربراہی میں باؤنڈری کمیشن نے بھی وادی کشمیر پر قبضہ کرنے میں بھارت کی مدد کی اس نے ایک مسلم اکثریتی علاقہ گورداس پور کو تقسیم کیا اوراسے بھارت کے حوالہ کر دیا اسطرح ایک حد بندی کر دی گئی جس سے جموں و کشمیر کا زمینی راستہ بن گیا بھارت افواج کی آ مد کے بعد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تاکہ وادی کی آ بادی کء حیثیت کو تبدیل کیا جا سکے کشمیری عوام نے کبھی بھی غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا اور 1947 میں عوامی بغاوت کے زریعے آ زادی کی جہدوجہد شروع کی،دریں اثنا ہندوستانی حکومت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اس کی مدد طلب کی سلامتی کونسل نے،جنگ بندی لائن کی حد بندی ریاست کو غیر مسلم کرنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کی منظوری دینے والی دو قراردادیں منظور کیں یہ قراردادیں 13 اگست 1948 اور پانچ جنوری تک منظور کء گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا ان قراردادوں کا صرف ایک مرحلہ (جنگ بندی اور جنگ بندی لائن کی حد بندی) نافذ کیا گیا جبکہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے کو غیر مسلم کرنا اور راے شماری کا انعقاد ابھی تک غیر عملی ہے جنوری 1989 سے آج تک بھارتی فوجیوں نے تقریباً دو لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا ھزاروں خواتین کو بیوہ بچے یتیم ہوئے جبکہ ہزاروں کشمیری خواتین کو اجتماعی زیاتی کا بھی نشانہ بھی بنایا کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے 10000 سے زائد نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا جن کے ٹھکانے کا بھی کوئی پتہ نہیں مل سکا جبکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو جعلی مقابلوں میں بھارتی فوجیوں کو مارے جانیکے بعد علاقہ میں دریافت ہونے والی ہزاروں بے نشان قبروں میں دفن ہونے کا بھی خدشہ ہے سیکڑوں نوجوان اپنی ایک یا دو آ نکھیں گولی کے زخموں سے کھو چکے ہیں جبکہ ہزاروں سے زاہد اپنی بینائی سے محروم ہونے کے دہانے پر ہیں حریت رہنماؤں سمیت سیکڑوں افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے جس میں سید علی گیلانی نے اپنی زندگی کی آ خری سانس لی اور اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو گے آ زادی کی جس جہدوجہد کے لیے زندہ رہے اپنے جیون کے 92 برس گزار کر اس نام کے ساتھ آ نکھیں موند لیں، ہمارے نوجوانوں کو کشمیر کا سفیر بنانے کے لیے حکومتی رہنماؤں اور تعلیمی اداروں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا نوجوان طلباء پر مشتمل کشمیر کمیٹی اپنے اپنے اداروں میں کشمیر کے حق میں اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے مختلف تقریبات کا انعقاد ضروری ہے سیمینار کروائے جائیں تقریری مقابلے اور کشمیری شہداء کیلیے اپنی اپنی تحریروں سے خراج تحسین پیش کرنا ہو گا اور پھر نوجوان کشمیری سفیروں کو عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ احسن طریقے سے لڑنے کے لیے تیار کیا جائے تاکہ تحریک آزادی کے لیے مزید بہتر نمائیندگی کی جا سکے اور انشاء وہ دن دور نہیں سری نگر لال چوک پر پاکستانی پرچم لہرایا جائے گا




