چوتھا وزیر اعظم جائز نہیں ہے

یہ سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں مردایک ہی وقت میں صرف تین بیویاں رکھ سکتا ہے، چار بیویاں رکھنے کا مسلمانوں کے ہاں دستور نہیں ہے، اس سے متضاد تواستغفراللہ،خیر سوال کا پیدا ہونا بھی گناہِ کبیرہے اور نہ ہی شریعت و فقہ مقررہ حد سے تجاوز کی اجازت دیتا ہے،خیر سوال کرنا بھی گناہِ کبیرہ۔۔ وہیں سے یہ زریں خیال مستعار لے کر میں یہ فتویٰ داغنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ایک ہی مدت میں چار وزرائے اعظم کا انتخاب قطعاََ ناجائز، غیر سیاسی و غیر منطقی ہے، خاص طور پر جب ”ولی“ اور گواہان (شاد وشاد) ایک ہی ہوں،نکاح خواں اور باراتی بھی وہی ہوں، دولہے کے دوست اور دلہن کی سہیلیاں بھی ایک ہی ہوں، اور ڈھول بجانے والے میراثی بھی وہیں ہوں اور پیسے لوٹنے اور بیلیں (ویلیں) چننے والے بھی وہی کھلنڈرے لڑکے ہوں،اور ڈولی ے کہار بھی وہی چار، قارئین آپ کو یاد ہوگا006 سے 2011 تک کی مدت میں ہم پہلے بھی اس قسم کا ایک ناکام تجربہ کر چکے ہیں جس کا خمیازہ ملت اور تمام سیاسی پارٹیاں آج تک بھگت رہی ہیں، اگر ہم نے حسب روایت اُن واقعات سے سبق نہیں سیکھا تو اب کی باررہتی کسر بھی پوری ہو جائے گی اور ہم اپنا سیاسی منہ پھر کالا،نیلا، پیلا کر بیٹھیں گے اور کسی کو یہ ُمنہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، پہلے ہی عالمی سطح پر گذرے 78سالوں میں ہماری دانش، فہم، حکمت و تدبر کی کہانیاں چار وانگ عالم میں پھیل کر ہماری ساکھ کافی متاثر ہو چکی ہے،اب ایک ہی وقت میں ہم دلہن کی چوتھی شادی رچا کے۔۔ اوہ سوری، ایک ہی مدت میں چوتھے وزیر اعظم کا انتخاب کرا کے تو ہم خارج از جمہوریت و انسانیت و آدمیت ہو جائیں گے اور پروانے کے بجائے ” بھنورے“ کہلانا شروع ہو جائیں گے،پھر ہم ایشیا اور دنیا میں کیسے نیک نام کہلائیں گے، سارے سیاست دانوں کی، ممبران اسمبلی کی قسم بہت پچھتائیں گے،،، نہیں ہم نہیں، یہ سارے اقتدار پرست سیاست دان پچھتائیں گے،اور سر پیٹ پیٹ اور ہاتھ مَل مَل کے روئیں گے، مسلم لیگ ن کے یا تو کسی ممبر اسمبلی کو اکھاڑے میں اترنے کی جرات رندانہ حاصل نہ ہو سکی ہے یا انہوں نے کسی خفیہ منصوبہ بندی کے باعث ہی پیپلز پارٹی کو ’’ بَلی کا بکرا“ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنا دامن صاف بچا لینے کا خواب دیکھا ہے، لیکن وہ بھول جائیں جیسے وہ انوار حکومت کی ساری خوبیوں کے ذمہ دار ہیں ویسے ہی وہ اس نئے گناہ کبیرہ میں بھی ملوث سمجھے جائیں گے، لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ صدر آصف زرداری پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کو یہ نادانی کرنے اور اتنے کم پانی میں ڈوب مرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں چوہدری یاسین سے لے کر موسٹ فیورٹ سردار یعقوب خان اور سوپر فیورٹ فیصل ممتاز راٹھور تک، سپیکرز کے وزیر اعظم بننے کی رسم چل نکلی ہے تو چوہدری لطیف اکبر صاحب بھی سب سے سینیئر ہیں،باقی سینئرز میں مظفرآباد سے بھی میاں عبدالو حید،چوہدری رشید، اور ان کے علاوہ بھی باقی سب بھی سرد و گرم چشیدہ اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، اور وزیر اعظم بننے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر ان میں سے اکثر مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور ایک ہی وقت میں انہیں چوتھی شادی۔۔۔ سوری ایک ہی مدت میں چھوتھا وزیر اعظم بننے کو گناہ بلکہ گناہ کبیرہ سمجھنا چاہیے، اور یقین مانیں کہ ”انگور کھٹے ہیں“ جیسے ماحول میں بعض علی لا علان انگوروں کو شدید کھٹا بھی کہتے سنے گئے ہیں، لیکن با با انگور توپھر انگور ہیں ہر کوئی ایک بار کھانا تو چاہے گا، چاہے وہ آملوکوں کی طرح مطلقاََ مکروہ اور حرام ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں، ارے بھئی ملوکوں کے نام سے کنفیوز کیوں ہوتے ہیں، وہ بندر اور آملوکوں کی کہانی تو آپ نے سن تو رکھی ہو گی، خیر ہمارا کام اذان دینا ہے سو ہم دے رہے ہیں، ہم تو صرف سب کو یہ بتانا چاہتے کہ اس گناہ آلود خواہش سے ہی دور رہیں ورنہ اگر وزیر اعظم انوارالحق نے کہیں غصے میں آکر استعفیٰ دے ہی دیا تو یقین مانیں کہ پھر گدی پرتو کوئی اور بیٹھے گا اور یہ گدی ہمیشہ کیلئے کم ازکم موجودہ سیاستدانوں سے دور چلی جائے گی بلکہ یہ اندیشہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ کہیں چاچا فاروق حیدر خان کی پیشن گوئی اب انوار بھائی پر آکر درست ہی ثابت نہ ہو جائے،اور سب کے سب ہاتھ ملتے اور منہ تکتے ہی نہ رہ جائیں، اور اس سے بڑھ کر کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ کھایا پیا کچھ نہیں،گلاس توڑا بارہ آنہ“کیونکہ گلاس اور بھرم تو خیر ہم کتنی ہی بار توڑ چکے ہیں رہتی سہتی کسر ہمارے ہڑتالیوں میں شامل سادھ لوح، جذباتی، اور خود کو وطن پرست سمجھنے والے دوستوں نے غصے میں اداروں کے خلاف انتہائی سخت نعرے لگا کر پوری کر دہی ہے،حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وطن پرست وطن کیلئے امنے مال و جان کی، کاروبار کیاور جانوں کی قربانیاں دیا کرتے ہیں،سیاستدانوں کی طرح سارے الزامات دوسروں اور پچھلی حکومتوں کے سر نہیں تھوپا کرتے،اور وہ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ وہ تھرڈ آپشن جس کے وہ متمنی ہیں وہ یو این کی الماری میں بند اور کرم خوردہ ہو رہا ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ اگر ان نادان سیاستدانوں نے صدر زرداری اور میاں نواز و شہباز شریف کے مشورے نہ مانے اور پی ٹی آئی کے جموں و کشمیر کے ممبران کی طرح اپنے ہی مرکز کی بات نہ مان کر بغاوت کی تو اب کی بار ایکشن کمیٹی، شوکت نواز میر اور نذیر میر، سردار امان، خواجہ مہران ودیگران سے پہلے یہ سب ایجنٹ اور بھارتی بیانیہ کے تر جمان قرار پائیں گے اور سب رگڑے جائیں گے، کیونکہ ان کی پشت پر تو اب گھر والے بھی مشکل سے کھڑے ہوں،باقی رہ گیا نام نہاد آئین جو راتوwں کو ایک بجے سو جایا کرتا ہے اور 12بزعم خود آئینی ممبران تو حیرت کی بات ہے کہ بارہا بتلا چکا ہوں کہ اگر اس طرح مہاجرین کو نشستیں دے کر رشتے اور رائے شماری کے ووٹ مضبوط ہو سکتے ہوں تو بھرت کب کا اپنے تارکین کشمیر پنڈتوں کو درجنوں نشستیں دے کر مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی حکومت بھی بنوا چکا ہوتا، اس لئے اس غلط فہمی سے خوعد بھی نکلیں اور ملت جموں کشمیریہ کو بھی نکلنے دیں،اور قوموں اور خاندانوں سے آگے نکل کر ایک ملت بننے کی کوشش کریں، بننا تو ہمیں ملت اسلامیہ چاہیے لیکن اس سے قبل اگر آپ اور ہم سب ملت جمو کشمیریہ ہی بن جائیں تو غنیمت ہے،اور آخری نقطہ کہ ہمارے ممبران اسمبلی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر عدم اعتماد لایا گیا یا چوہدری انوارالحق کو استعفیٰ دینے یا اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا گیا، تو ایکشن کمیٹی یعنی عوام کے سارے تسلیم شدہ مطالبات کھٹائی میں پڑھ جائیں گے، اور یہ آپ سیاستدانوں کے زاتی مفاد میں تو ہو سکتا ہے مگر ملت کے انتہائی نقصان میں ہو گا، اسی لئے یقین مانیں کہ اس وقت سارے اختلافات کے باوجود ایکشن کمیٹی، عوام، میڈیا،اور پوری ملت انوارالحق کی پشت پر کھڑی ہو گی اورآپ لوگ اگر نام نہاد آئین کی کمزور بیساکھیوں کے سہارے کچھ کر بھی لیتے ہیں تو ملت آپ کا جینا اور مرنا تک حرام کر دے گی، اس لئے مناسب یہی ہو گا کہ آپ ملت کے پاسبان و نگہبان بنیں، خدا معاف کرنے والا ہے،ملت نے معاف کر دیا تو شاید وہ بھی آپ کے ناقابل معافی گناہ بھی معاف کر دے،اور میرے مہاجر بھائیوں کے فرضی خود غرضی نمائندوں سے گذارش ہے کہ جو کچھ کھا پی لیا ہے بس وہی سب ہضم ہو جائے تو غنیمت جانیں،ورنہ آپ کے صرف جعلی ووٹرز کا،(جن میں اکثریت غیر ریاستیوں کی ہے) حساب ہوا تو لینے کے دینے پڑھ جائیں گے، اور جو آپ باپ دادا کی قربانیوں کے نام پر طلب کر رہے ہیں بالکل وہی بنگلا دیش کی وزیر اعظم نے بھی اپنوں کو دیا تھا اور اُسی بنیاد پر دیا تھا جو آپ نے بنائی ہے۔ پھر ان سب کا کیا انجام ہوا آپ نے دیکھ لیا ہو گا اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو آج پھر اس انقلاب کا تفصیلی جائزہ لے لیں، اور خدارا اپنے ساتھ ساتھ پوری ملت کو گہری کھائی میں مت دھکیلیں، اور باقی ؤ این سی آئی پی کی منظور شدہ قرار دادوں کا بھی پھر جائزہ لے لیں، اس میں اس جعلی حکومت اور اس کابینہ کی کہاں گنجائش نکلتی ہے، آپ کی یہ مکمل حکومت تو یوں بھی ان قرار دادوں کی نفی اور تحریک آزادی، حق خود ارادیت کی راہ میں پہلی بڑی رکاوٹ ہے، جو صرف ہم خود ہی ہٹا سکتے ہیں، آئیں ہم سب مل کر یو این سی آئی پی کی راہ میں حائل ایسی رکاوٹیں ہٹا کر رائے شماری کی منزل تک پنہچنے کی کوشش کریں، رب ہم سب کو راہ مستقیم پر چلنے کی ہدایت و ہمت عطا فرمائے،آمین۔