
ایک المیہ جو تاریخ کے سینے پر نقش ہے6 نومبر 1947 — برصغیر کی تقسیم کے محض چند ماہ بعد، جموں و کشمیر کی سرزمین پر ایک ایسا المیہ رقم ہوا جس کی بازگشت آج بھی تاریخ کے اوراق سے خون بن کر ٹپکتی ہے۔ یہ وہ دن ہے جب جموں، کھٹوعہ، سانبہ، ریاسی، اودھم پور اور ان سے ملحقہ علاقوں میں ہزاروں مسلمان محض اپنے ایمان، اپنی شناخت اور اپنے خواب — پاکستان — سے محبت کے جرم میں قتل کر دیے گئے۔یہ سانحہ کسی اچانک بپھری ہوئی بھیڑ کا نتیجہ نہیں تھا؛ یہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا نسل کُشی (Genocide) تھی، جس کا مقصد جموں خطے کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا اور ریاست جموں و کشمیر کے ممکنہ الحاقِ پاکستان کو ناممکن بنانا تھا۔ریاست جموں و کشمیر کی کل آبادی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 77 لاکھ تھی، جس میں مسلمان 77 فیصد کے قریب تھے۔مسلم اکثریت کے باوجود ریاست پر ہندو ڈوگرہ راج کا تسلط تھا۔ 1947ء میں جب برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو اصولِ تقسیم کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہونے تھے۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ رہا، کیونکہ مہاراجہ ہری سنگھ، جو ایک غیر مسلم حکمران تھا، پاکستان کے ساتھ Standstill Agreement پر تو راضی تھا مگر الحاق کے فیصلے میں تذبذب کا شکار رہا۔اسی دوران ریاست کے مختلف حصوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ مظفرآباد، پونچھ اور میرپور میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ ان علاقوں کے مسلمانوں نے مہاراجہ کی جبری حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ تاہم جموں کے مسلمان اس وقت نہتے اور حکومتی جبر کے براہِ راست نشانے پر تھے۔ مہاراجہ کی فوج، ہندو انتہاپسند تنظیموں (آر ایس ایس، اکالی دل) اور مقامی بلوائیوں نے ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا — اور پھر جب وہ قافلوں کی صورت میں سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ اور لاہور کی طرف بڑھنے لگے تو راستے میں ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔مختلف تاریخی ذرائع — بشمول Ian Stephens (The Statesman)، Horace Alexander، اور بعض پاکستانی محققین — اس بات پر متفق ہیں کہ اکتوبر تا نومبر 1947 کے دوران جموں خطے میں دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔یہ قتلِ عام اس وقت کیا گیا جب مسلمانوں کو پُرامن ہجرت کے بہانے اکٹھا کیا گیا اور پھر انہیں ٹرکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور کھلے میدانوں میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔دریا توی کی لہریں انسانی لاشوں سے اَٹ گئیں۔ایسے میں جنہوں نے زندہ بچ کر پاکستان کی سرحد پار کی، ان میں زیادہ تر عورتیں، بچے اور بزرگ تھے — وہ بھی اپنے پیاروں کی لاشوں کے زخم دل میں لیے ہوئے۔جموں کے شہداء غازی اور ان کی اولادیں پاکستان کو اپنے عقیدے، اپنی تہذیب، اپنی شناخت کا تسلسل سمجھتی تھیں سمجھتی ہیں اور سمجھتی رہیں گی وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان ان کے خوابوں کا وطن ہے — ایک ایسی سرزمین جہاں وہ آزادی سے اپنے دین، زبان اور روایتوں کے ساتھ جی سکیں گے۔اسی یقین نے انہیں یہ حوصلہ دیا کہ وہ اپنے گھربار، زمینیں، کھیت، مویشی، حتیٰ کہ عزیز و اقارب سب کچھ قربان کر کے پاکستان کی طرف روانہ ہو گئے۔یہ وہ ہجرت تھی جو 1947 کی تاریخ میں سب سے بے درد، خونی مگر ایمان افروز واقعہ کہی جا سکتی ہے۔آزادی کے بعد ریاست جموں و کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر لیکن اس تقسیم نے جموں کے مسلمانوں کے زخم کبھی مندمل نہیں ہونے دیے۔کیونکہ ان کی قربانیوں کو تاریخ کے مرکزی دھارے میں وہ مقام نہیں ملا جس کی وہ مستحق تھیں۔پاکستانی اور کشمیری قیادت کی تقریروں میں ”آزاد کشمیر” کا نام تو بارہا لیا جاتا ہے، مگر ”شہدائے جموں ” کا تذکرہ اکثر پسِ منظر میں رہ جاتا ہے۔یہ وہ خاموش درد ہے جسے جموں کے مہاجر خاندان آج بھی اپنی چوتھی اور پانچویں نسل تک محسوس کرتے ہیں۔1947 میں جموں کے مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب دیکھا تھا، وہ بنیاد اسلامی اخوت، خودمختاری اور عدلِ اجتماعی کے اصولوں پر قائم تھی۔لیکن موجودہ دور میں، جب کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی سیاست کا موضوع بنا ہوا ہے، اس بنیاد میں دراڑیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام آج بھی اپنی شناخت اور حقِ خودارادیت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ اگر آج بھی جموں و کشمیر کے باسیوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت زندہ ہے تو وہ انہی شہداء کی بدولت ہے جنہوں نے ”لا الٰہ الا اللہ” کی صدا بلند کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔شہدائے جموں کو یاد رکھنا محض تاریخ کا تقاضا نہیں بلکہ قوم کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔یہ وہ چراغ ہیں جن کے بغیر پاکستان کی آزادی کا تسلسل ادھورا ہے۔ان کی قربانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ وطن صرف سرحدوں سے نہیں بنتے، بلکہ خون کی لکیروں سے سینچے جاتے ہیں۔”سائے میں بیٹھی نسل کو کیا معلومدھوپ کی نظر ہوئے پیڑ لگانے والے”آج کی نسل جو آزادی کے سائے میں پل رہی ہے، اسے یہ جاننا چاہیے کہ یہ سایہ ان پیڑوں کا ہے جنہیں جموں، میرپور، پونچھ، اور بھمبر کے شہداء نے اپنے خون سے سینچا تھا




