کالمز

دہلی دھماکوں کے بعدکشمیریوں پر جبر وستم کا نیا دور

ایک دن کے وقفے کے ساتھ جنوبی ایشیا کے دوروایتی حریف ملکوں بھارت اور پاکستان کے دارالحکومتوں کے وسطی اور ہائی سیکورٹی زونز میں بم دھماکوں میں درجن بھر افراد مارے گئے۔حیرت کے بات ہے کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری براہ راست ایک دوسرے پر عائد نہیں کی گئی۔پاکستان کی طرف اسلام آباد دھماکے کارخ طالبان حکومت کی طرف موڑا گیا اور بھارت نے پاکستان کو براہ راست مورد ِالزام ٹھہرانے کی بجائے اس کا سارا ملبہ وادی کشمیر کے لوگوں پر ڈال دیا اور اس کے بعد سے بھارت کشمیر میں اپنی فوجی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو ایک بار پھر اجتماعی عتاب کا نشانہ بنارہاہے۔دونوں دارالحکومتوں میں ایک دن کے وقفے کے ساتھ جس انداز سے دھماکے ہوئے یوں لگا کہ جیسے کسی نے بٹن دبا کر پہلے ایک اور پھر دوسرے دارالحکومت کونشانہ بنایا ہو۔کیا کوئی تیسرا ہاتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا ایک دور شروع کروا کر اپنے درپردہ مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے؟ یہ سوال قطعی بے سبب نہیں۔عمومی طور پر تیسرے ہاتھ کے طور پر خیال اسرائیل کی جانب جا رہا ہے۔اسرائیل اب عرب دنیاسے آگے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی کو زیادہ واضح اور گہرا بنا نے کا خواہش مند ہے۔امریکی صدر ٹرمپ خطے میں ثالثی کا ایک راونڈ کھیل چکے ہیں مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بدستور منجمد ہیں۔اس انجماد کا ٹوٹنا بھی ضروری ہے اور یہ جنگ کے ایسے راونڈ سے ہی ممکن ہے جس کا انجام یا اختتام صدر ٹرمپ کی حقیقی ثالثی پر ہو۔ایسی ثالثی جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا احیا ء ہواور یوں معاملات کی رکی ہوئی گاڑی چل پڑے۔امریکہ بڑی حد تک پاکستان کا تصور دشمن تبدیل کرواچکا ہے۔جس کے نتیجے میں اب واہگہ پھاٹک پر سکون ہے اور طورخم ایک آشوبِ مسلسل بن چکا ہے۔ایسے میں دہلی میں دھماکے کا سار املبہ کشمیر پر ڈال دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کو کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا نیا بہانہ مل گیا ہے۔معاملہ صرف کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے بھارتی مسلمانوں کے مزیدنٹ بولٹ کسے جانے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔دہلی دھماکوں کے بعد فرید آباد میں انتیس کلو دھماکہ خیز مواد ضبط کرنے کا اعلان کیا گیا اورکہا گیا کہ دہشت گردوں کا ایک نیٹ ورک بھی پکڑا گیا ہے۔اس نیٹ ورک کو جیش محمد اور انصار غزوۃ الہند کا نام دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ تین ڈاکٹرز سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔کہا گیا کہ یہ نیٹ ورک کشمیر ہریانہ اور اترپردیش تک پھیلاہوا ہے۔گرفتار ہونے والوں میں کشمیر کے دو ڈاکٹر مزمل اورشاہین شامل شامل تھے۔جنہیں پوچھ گچھ کے لئے جہاز کے ذریعے سری نگر سے دہلی منتقل کیا گیا۔کہا گیا کہ خاتون ڈاکٹر کی کار سے کلاشنکوف AK47ُٰٓٗ ُُٓٓ۔اس کے ساتھ ہی سری نگر میں جیش محمد کے پوسٹر چسپاں کرنے کے الزام میں کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔دعویٰ کیا گیا ان افراد کے موبائل فونز میں پاکستان کے فون نمبرز بھی سیو تھے۔اسی دوران یہ اعلان کیا گیا کہ دہلی دھماکہ ایک کشمیری عمرالنبی نے کیا ہے۔اس کے بعد عمرالنبی کی والدہ سے ڈی این اے کانمونہ بھی حاصل کیا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ عمر النبی وہ کار چلا رہا تھا جس کے ذریعے دہلی میں دھماکہ کیا گیااور وہ ان بارہ لوگوں میں شامل تھا جو دھماکے میں مارے گئے۔گرفتار کئے جانے والے ڈاکٹروں کے اہل خانہ نے بھارتی حکومت کے الزامات مسترد کئے ہیں۔ایک روز بارودی مواد لگا کرعمر النبی کے گھر کواُڑادیا گیا۔عمر النبی کے ایک ساتھی عامر رشیدکو کشمیر
پانپور سے گرفتار کیا گیا۔کیمیکل اور کھاد کے تاجروں کو پوچھ گچھ کے نام پر ذہنی اور جسمانی عتاب کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔کشمیر کے تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم نوجوانوں کی فہرستیں مرتب کی جانے لگی ہیں کیونکہ بھارتی اداروں کو یہ شک ہے کہ اب پڑھے لکھے اور معاشی طورپر مضبوط اور فعال نوجوان اپنی نفرت کے اظہار کے لئے زیر زمین سرگرمیوں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ماضی میں دہلی کے منصوبہ ساز کشمیریوں کی نفرت اور بے چینی کو بے روزگاری کے زاویے سے دیکھتے تھے۔اب حالات نے ان کا زاویہ ء نگاہ تبدیل کر دیا ہے اور وہ تعلیم اور روزگار میں اب بے چینی کی وجوہات تلاش کرنے لگے ہیں۔کشمیر میں حالات اس قدر بگڑ رہے ہیں کہ محبوبہ مفتی کو کہنا پڑا کہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ تعلق ٹوٹ رہا ہے۔پارٹی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ سے خطاب میں ان کاکہنا تھا کہ تحقیقات کے نام پر بے قصور لوگوں کو تنگ نہ کیا جائے دہلی دھماکے کی شفاف تحقیقات کی جائی۔وادی میں بڑھتے ہوئے احساس بیگانگی سے نمٹا جائے۔انہوں نے کہا کشمیر کا المیہ یہ ہے کہ اسے بولنے نہیں دیا جارہا۔محبوبہ مفتی کے یہ خیالات بتارہے ہیں کہ بھارت کشمیریوں کے دل ودماغ جیتنے میں مسلسل ناکام ہو رہا ہے بلکہ کشمیریوں میں اس کے خلاف نفرت مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button