کالمز

کیاکشمیر کا آتش فشاں لاوہ اُگلنے کو تیار ہے؟

کشمیر میں حریت کیمپ اب اُجاڑاور ویران ہو چکا ہے۔کسی دور میں دہلی سے اسلام آباد طاقت کی راہداریوں میں سرخ قالین پر چلنے والی قیادت میں کچھ لوگ داعیئ اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں اور کچھ اپنے حال اور مستقبل سے بے خبر جیلوں میں بند ہیں۔صرف میرواعظ عمر فاروق ہی حریت کانفرنس کی آخری نشانی کے طور پر اس عالم پر منظر پر موجود ہیں کہ کبھی اب ان کی اکثر تقریریں غیر سیاسی رنگ لئے ہوتی ہیں اور کبھی ان پر جامع مسجد کا درواز کھلتا ہے تو کبھی نظر بندی کی صورت میں اپنا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔میڈیا سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کردار ناپید ہو چکے ہیں۔ایسے میں بھارتی دھارے میں سیاست کرنے والے کشمیری سیاست دان ہی کچھ نہ کچھ سچ اُگل کر حالات کی تصویر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔پروفیسر سیف الدین سوز کشمیر کے بذرگ سیاست دان ہیں۔نیشنل کانفرنس سے کانگریس تک کا سفر طے کیا اور اب کسی بھی سیاسی جماعت لاتعلق ہیں۔سیف الدین سوز بھارتی پارلیمنٹ میں اپنا بھرپور کردارکرتے رہے ہیں۔1999میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت ان کے فیصلہ کن ووٹ کے نتیجے میں عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی تھی۔پروفیسر سیف الدین سوز نے حال
ہی میں کشمیر کے موجودہ حالات پر ایک اہم انٹرویو دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے لوگوں نے بھارتی حکومت کے پانچ اگست 2019کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔صرف ردعمل دکھانے کے حوالے سے لوگوں نے اپنی سٹریٹجی بدلی ہے۔وہ سمجھتے ہیں اگر اس وقت احتجاج کریں گے تو مارے جائیں گے مگر کبھی نہ کبھی یہ پھوڑا پھٹ جائے گا اورلوگ پرامن احتجاج کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حریت کانفرنس منظر پر نہ سہی مگر مین سٹریم جماعتیں نیشنل کانفرنس،پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے اور کشمیر ی عوام خود تحریک چلائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جمہوری ہندوستان کا حصہ ہیں اور ہندوستان کے آئین نے ہر شہری کو پرامن احتجاج کا حق دیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دلوں میں ناراضگی موجود ہے بس وقت کا انتظار ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔آپ نے یک طرفہ طورپر دفعہ 370کو ختم کیا ہے اور اعتماد کو توڑ دیا ہے۔سیف الدین سوز نے مشرف من موہن دور کو یاد کرتے ہوئے کہا ایک روز پارلیمنٹ میں انہوں نے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے پوچھا کہ آپ نے تو اگلے ہفتے پاکستان جانا تھا اس کا کیا ہوا؟تو من موہن سنگھ نے کہا پروفیسر صاحب ہمیں پاکستان سے پیغام ملا ہے کہ یہاں حالات خراب ہوگئے ہیں اس لئے فی الحال آپ پاکستان کا دورہ ملتوی کریں اور کچھ وقت کے بعد آئیں مگر وہ وقت پھر کبھی نہیں آیااوراس طرح مسئلہ کشمیر کے حل کا ایک اہم موقع ضائع ہوگیا۔سیف الدین سوز کے مطابق اس وقت پاکستان میں وکلاتحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔دوسرے لفظوں میں وہ بھی یہ گواہی دے رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر ایک سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے۔سیف الدین سوز نے بہت پراعتماد لہجے میں کہا کہ جو لوگ اقوام متحدہ میں گلا پھاڑ کر کہتے ہیں کہ کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں وہ جان لیں کہ کشمیر اب بھی ایک مسئلہ ہے۔ہندوستان پاکستان اور جموں وکشمیر کے
عوام اس مسئلے کے تین فریق ہیں۔یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔پاکستان کا نمائندہ کشمیر پر بولتا ہے تو بھارت کا نمائندہ اس کاجواب دیتا ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ کہہ رہے تھے کہ بھارت اقوام متحدہ کے ایجنڈے کے تحت مسئلہ کشمیر سے متعلق مشق کا حصہ ہے۔ان سے پوچھا گیا کہ حریت کانفرنس جو کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر زور دیتی تھی اب منظر پر موجود نہیں تو ایسے میں مذاکرات کون کرے گا؟ان کا کہنا تھا حریت نہیں کشمیر کے لوگ تو موجود ہیں لوگوں سے ڈائیلاگ ہونا چاہئے سب سے بات چیت کریں گے تو مسئلے کا حل نکل آئے گا۔کشمیر کے بذرگ سیاست دان کی یہ باتیں بھارتی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جو کشمیر کی شناخت اور وجود کی توڑ پھوڑ کے بعد ”سب اچھاہے“ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔یہ باتیں ایک ایسے سیاست دان کی ہیں جو دہائیوں سے سیاست کے میدان میں موجود ہے بلکہ بھارتی لوک سبھا میں دہائیوں تک کشمیر کی نمائندگی کر چکا ہے۔بھارتی آئین پر بھارت سے وفاداری کا بارہا حلف لے چکا ہے۔حقیقت بھی یہ ہے کہ ایک تو کشمیری عوام میں پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف غم وغصہ ایک آتش فشاں کی صورت میں موجود ہے تو دوسری طرف کشمیریوں نے دہلی کے مسلط کردہ لیفٹیننٹ گورنر کی براہ راست حکمرانی سے گلو خلاصی کے لئے نیشنل کانفرنس کی صورت میں ایک مقامی جماعت کو حق حکمرانی دیا مگر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیاعوامی رائے کے نتیجے میں بننے والا سیاسی سسٹم کٹی ہوئی پتنگ بن کر رہ گیا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اختیار کے بغیر اقتدار کے حامل ہیں۔یہاں تک اب انہیں کہنا پڑا کہ اگر وہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال نہ کرواسکے تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔اپنے حق رائے دہی کی یہ تذلیل اور تحقیر کشمیریوں کے دلوں میں موجود غصے کو مزید بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔انہیں عمر عبداللہ کی بے بسی سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنے ووٹ کی تحقیر کا ملال ہے۔یہ رویہ پانچ اگست کے اضطراب کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ اسی طرح پہلے عوامی احتجاج اور مزاحمت کے سارے رنگ مسلم اکثریتی وادیئ کشمیر تک محدود تھے اب یہ مزاحمت لداخ اور چناب ویلی کی صورت میں ایسے علاقوں میں مختلف انداز سے سراُٹھا رہی ہے۔یہ کشمیر کی مزاحمت کی نئی حرکیات ہیں۔اس سارے منظر میں سب اچھا ہونا تو درکنار کچھ بھی اچھا معلوم نہیں ہوتا۔

Related Articles

Back to top button