قلم و قرطاس کی حرمت اور اخبارات

ایک مسلمان صحافی ہونے کی حیثیت سے جب میں سوچتا ہوں کہ دنیا آج جدید ٹیکنالوجی کے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے، انٹرنیٹ،جی پی ٹی،اے آئی، موبائل، سوشل میڈیا، لائیو براڈ کاسٹ، غرض کے سب کچھ آ جانے کے باوجود جو اہمیت قدرت نے اپنے کلام میں قلم کی بیان کی ہوئی ہے اس کا مقابلہ کوئی بھی سائنسی ایجاد نہیں کر سکتی ہے نہ استطاعت رکھتی ہے، قلم کی عظمت کو دنیاوی حوالے سے اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام دین و مذاہب اور تمام نظریات حتی کہ ٓاج تک کی ساری ایجادات قلم کے ذریعے رقم کی گئی ہیں،ہر ہندو مسلمان سکھ عیسائی پارسی یہودی غرض کی کسی بھی دین و مذہب یا نظریے پر یقین رکھنے والاحتیٰ کہ بے دین و لامذھب بھی لکھے ہوئے الفاظ کو شعوری اور لا شعوری طور پر جو احترام دیتا ہے وہ کسی بھی صوتی یا بصری(آ ڈیو ویژول) کو حاصل نہیں ہو سکاہے،رہتا سہتا اعتبار جی پی ٹی، اے آئی اور اس طرح کی دوسری ایپس و نت نئی ایجاداتی موشگافیوں نے ختم کر دیا ہے، اسی لئے آج بھی دنیا بھر کے تمام مذاہب اور لا مذہب لوگوں کا جتنا اعتقاد ہو اعتماد تحریر پر ہوتا ہے وہ سماعت اور بسارت پر نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود دنیا بھر سے کتاب اور اب تو اخبار بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے، کتاب سے دوری کی تو کچھ الگ وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جو آج ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن اخبارات جو با اعتماد خبر کا ایک بڑا ذریعہ تھا جو سوشل و الیکٹرانک میڈیا سے قبل دنیا بھر کے لوگوں کے ذہن و قلب پر حکمرانی کیے ہوئے تھے وہ سب آج انحطاط وزوال پذیر ہیں، ایک زمانے میں صحافت ایک عبادت ایک خدمت ایک عوامی فلاح ہوا کرتی تھی لیکن اس کے انڈسٹری بن جانے کے بعد صحافتی اداروں نے ایک کمرشل فیکٹری کی،ایک کاروباری ادارے کی صورت اختیار کر لی ہے،اور کسی بھی کاروبار میں تیزی اور مندی ایک لازمی حصہ ہوا کرتی ہے، اس کاروبار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اخبارات اپنا اصل مقام کھو کر ایک پروڈکٹ بن گئے ہیں، وہ بھی ایک ایسی پروڈکٹ جو اپنی اہمیت کھوتی چلی جا رہی ہے، الیکٹرانک کے بعد سوشل میڈیا وغیرہ ایک وجہ ہیں دوسری وجہ حکومتوں کے صحافت کی نگرانی سے متعلق ادارے ہیں، جن کا مقصد و منشا حکومت کی تعریفوں کے پل باندھنا اور اس کے چھوٹے کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنارہ گیا ہے، اور اس کام کو وہ سرکاری اشتہارات کے ذریعے مکمل کنٹرول کرتے ہیں جس کی بنا پر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ صحافت کی روح مردہ ہوتی چلی جا رہی ہے، اور ایک مردے کو تو صرف ”ممی“ بنا کر ہی محفوظ اور باقی رکھا جا سکا ہے، دنیا بھر سے کہیں زیادہ انڈو پاک میں پرنٹ میڈیا اس سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس وقت تونوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اگر بعض اخبارات کی جعلی اور مصنوعی اے بی سی ختم ہو جاتی ہے تو وہ پرنٹ ہونے کے قابل بھی نہیں رہتے، جو اے بی سی نہیں ہیں وہ تو پانی کا بلبلا ہیں، کاغذ کے آسمان سے باتیں کرتے نرخوں نے بھی اس انحطاط میں اہم کردار ادا کیا ہے، ایک زمانے میں حکومت اخبارات کو رعایتی نرخوں پر کاغذ کا کوٹہ دیا کرتی تھی لیکن پھر اس صحافت کی”دستکاری“ کو انڈسٹری کا درجہ دے کر ”بے درجہ“ بنا دیا گیا، اتنا بڑا طوق گلے میں لٹک جانے کے بعد نہ تو اس کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہا، اور نہ ہی کسی نے کبھی مڑ کر اس کی طرف کوئی توجہ دی، حالانکہ آج بھی یہ بات مسلم ہے کہ لکھے ہوئے الفاظ ذہنوں ہی نہیں دلوں پر بھی نقش ہو جایا کرتے ہیں، وہی دراصل حقیقی نظریات اور بیانیہ بناتے ہیں،وہی موٹیویشن بناتے ہیں،وہی یقین،اعتماد اور ایمان بناتے ہیں، لیکن الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی چمک دھمک نے ذمہ داران کے علاوہ عوام تک کی آنکھیں چندیا دی ہیں ”حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوا کرتی“ نہیں قارئین میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی حقیقت اور اہمیت و فعالیت سے انکار نہیں کر رہا، میں تو ایک تقابلی جائزہ لے رہا ہوں، اب سوشل میڈیا کے باعث نقصان تو الیکٹرانک میڈیا کو بھی ہو رہا ہے، خیر تو میں عرض کر رہا تھا کہ یہ وہ بنیادیں ہیں جن کے باعث ی صحافتی پرنٹ میڈیا انڈسٹری تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے،مانا کہ یہ بوڑھی ہو چکی مگر بوڑھوں کو کیا بنا دوا داروں کے مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ؟اگر اب بھی کوئی روک تھام نہ کی گئی، بستر مرگ پر پڑے اس مریض کو آکسیجن اور تازہ خون نہ دیا گیا تو یہ میڈیا کچھ عرصے ہی میں قصہ پارینہ بن جائے گا،اور یہ طے ہے کہ لفظوں کے اختتام کے بعد کسی بھی مذھب، کسی بھی ملت، کسی بھی قوم، کسی بھی نظریے، کسی بھی ازم کا کوئی اجتماعی بیانیہ نہ بن پائے گا، دنیا اور خاص طور پر ایشیا، بر صغیر اس فکری انتشار کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں اور ہو جائیں گے، نہ صرف یہ ممالک بلکہ سارے ہی ترقی پذیر ممالک سب ایک فکری اور نظریاتی انتشاری اندرونی تقسیم کا نمونہ بن جائیں گے جس سے ملکوں کی اجتماعیت،اجتماعی ترقی، تعلیم، ہنر مندی، ثقافت، سماجت، سیاست، صحافت اور سفارت تک شدید متاثر ہوں گے اور ہو بھی رہے ہیں،اور اجارہ دار ممالک ان کی انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں اور کررکھیں گے، اور یہ گلوبل ولج کبھی بھی ایک گاؤں یا ایک شہر نہ بن پائے گا، عالمی تناظر سے ہٹ کر جب ہم اپنے وطن پاکستان اور یہاں آزاد ریاست جموں و کشمیر پر فوکس کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گراوٹ،یہ انحطاط پذیری، یہ زوال وہ واحد میدان اور شعبہ ہے جس میں ہم کرپشن کی طرح، آلودگی کی طرح سب سے آگے ہیں، اس حوالہ سے ہم نے دارالحکومت مظفر اباد کے ایک متبادل ذریعہ پروفیشن اختیار کرچکنے والے صحافی نیوز ایڈیٹر اور دانشور سردار ذو الحسنین سے بات کی تو انہوں نے اخباری صنعت اور صحافت کو ایک دوسرے سے الگ کرتے مگر یک جان رکھتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کی برک رفتار ترقی کے باعث متعدد شعبوں کی بقا کو خطرات لاحق ہیں ان میں اخبارات یعنی پرنٹ میڈیا بھی ایک اہم شعبہ ہے صورتحال یہ ہے کہ اس وقت جس کے پاس ایک ٹچ موبائل ہے وہ ایک چلتا پھرتا میڈیا ہاؤس بن چکا ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے پرنٹ میڈیا پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں،سوشل میڈیا سے متعلق کیس لاہور کے سیمینار میں غیر معمولی ا ہمیت دی گئی ہے، سردار ذوالحسنین نے کہا کہ اخبارات سے منسلک انتظامیہ، رپورٹر، نیوز ڈیسک کے عملہ کو خاص طور پر اس زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، جو اپنے نان پروفیشنل رویے کی بنا پر نقصان کا باعث بن رہا ہے، کئی اخبارات ٹھیکے پر چل رہے ہیں، غیر تربیت یافتہ، اخلاق باختہ،ادب سے، اخلاقیات سے نابلد، عزت نفس تک کی تعریف نہ سمجھنے والے جب اخبارات سے وابستہ ہو جائیں گے تو پھر زوال تو مقدر بن کر رہے گا، نیوز ڈیسک ایک ایسا شعبہ ہے جو اخبارات کو سہارا دے سکتا ہے لیکن وہاں بھی لفظوں کے معنی اور جملے ہی نظر انداز کر دیے جاتے ہیں دوسری طرف رپورٹرز،مضمون نگار اور دوسرے متعلقہ لوگ اے آئی کا بے تحاشہ استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث اخبارات ایک روبوٹک پروڈکٹ بند کر رہ جاتے ہیں،،، ایک دوسرے مشاق صحافی اور مقامی اخبار کے ایڈیٹر عبدالواجد خان کہتے ہیں کہ صحافت کی انڈسٹری میں اب صحافی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہنے دی جا رہی، اب اخبارات کے مالک خود ہی رپورٹر نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر بن چکے ہیں، صحافت اور خبر کے تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، بس سپانسر ز کی منشا پوری کرنا ہی فرض منصبی ہے،اب ساری ترکیب اور بندش ایسے ہی بنی ہے، ان بندشوں کو کون کیسے توڑے گا، اب تو ایک اخبار بنانے کو ایک پیج میکر ہی کافی سمجھا جاتا ہے،صحافت کی آج بھی بڑی مانگ ہے، مگر وہ مارکیٹ میں آئے گی تب بکے گی نا جناب،،،ریاستی صحافت اور اخبار کے پبلشرز میں ایک اور بڑا نام خواجہ سرفراز احمد کا ہے، اسی عروج و زوال اور خود کو سنمبھال کے سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اخباری صنعت کا بحران کوئی آج کی بات نہیں ہے، یہ عمل گزشتہ دہائی سے جاری ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،عوام کا سوشل میڈیا کی معلومات پر انحصار کرناہے، قارئین کی اخبارات پڑھنے میں عدم دلچسپی اور اشتہارات کی آمدنی میں نمایاں کمی اس ناکامی میں شامل ہیں۔ پرنٹنگ اخراجات میں اضافہ اور مارکیٹ کی مسابقت نے بھی اس صنعت پر دباؤ بڑھایا ہے ،اس زوال کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ اخبارات جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں، معیار پر مبنی تحقیقی رپورٹنگ کو فروغ دیں، قارئین کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق متنوع مواد شائع کریں، ساتھ ہی حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے مالی معاونت، اشتہاری مواقع اور صحافتی استعداد کار بڑھانے کے لئے سرکاری سطح پر پروگرامز بھی اس صنعت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،،، آزاد جموں کشمیر کے معروف صحافی اور ایک موثر روزنامہ کے پبلشر ظہیر احمد جگوال کہتے ہیں کہ ایک تو اخبارات اب سوشل میڈیا پر آگئے ہیں اور صبح سے پہلے ہی رات کو اپلوڈ کر دیے جاتے ہیں تو پھر دوسرے روز اخبار خریدنے کی زحمت کوئی کیوں کرے گا، جبکہ اخباری پیپر،پلیٹیں اور دیگر مواد حد سے زیادہ مہنگا ہو چکا ہے




