کالمز

غزہ امن منصوبہ یااسرائیلی بالادستی؟

غزہ امن منصوبے کو انسانیت کی نظرسے دیکھاجائے توگزشتہ دوسال سے جاری خونریزی کابندہوناقابل تحسین اورسکون بخش معلوم ہوتاہے جسے ہرصورت افذہونااورنافذرہناچاہیے۔پراس منصوبے کے بنیادی وجودپرپیداشدہ خدشات پرمزیدتوجہ اورتبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہورہی ہے،صدرٹرمپ امن کے نوبل انعام کے امیدوارہیں توپھرانہیں اسرائیل کی پست پناہی چھوڑکربلاامتیازانسانیت کی پشت پرکھڑاہوناچاہیے۔امن کاقیام کسی خاص ریاست،نسل یامذہب کی حمایت اوردیگرممالک ومذاہب کوکمزورکرنے سے ممکن نہیں،اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کامطلب صاف ظاہرہے کہ صدرٹرمپ جانبدارہیں۔ ایسے میں نوبل انعام کے حق دارکیسے ہوسکتے ہیں؟
امریکہ کی قیادت میں پیش کیے گئے غزہ امن منصوبے پر جیسے جیسے عمل درآمد کے مراحل آگے بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے اس منصوبے کی حقیقی سمت اور اس کے پسِ منظر میں چھپے سیاسی عزائم زیادہ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس بات کا ایک نہایت معنی خیز منظر اُس وقت سامنے آیا جب صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران فلسطینی ریاست کے حق میں آواز بلند کرنے پر دو اسرائیلی ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے باہر نکال دیا گیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ پورے امن منصوبے کی فکری سمت اور سیاسی ترجیحات پرشدیدخدشات کااظہارتھا۔
خطاب کے دوران جب دونوں ارکان نے، فلسطین کو منظور کرو، کے پوسٹر بلند کیے تو لمحوں میں سکیورٹی عملہ حرکت میں آیا، دونوں کو ایوان سے باہر نکال دیا گیا اور باقی ارکان پارلیمنٹ تالیوں کے ساتھ امریکی صدر کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ اسپیکر نے معذرت پیش کی، صدرٹرمپ نے سکیورٹی اہلکاروں کو سراہا اور ایوان نے دوبارہ تالیاں بجا کر اس کی تائید کی۔ یہ منظر صاف بتا رہا تھا کہ غزہ امن منصوبہ دراصل امن سے زیادہ اسرائیلی بالادستی کے تحفظ کا ایک عملی خاکہ ہے۔اسرائیلی میڈیاکے مطابق احتجاج کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کاتعلق اپوزیشن سے ہے جن میں ایک عرب اسرائیلی رکن،ایمن عود،تھا اور دورسرا، عوفرکسیف، تھا۔دونوں ارکان کاتعلق یہودی نسل سے ہے اور بائیں بازو کے سیاست دان ہیں۔ یہ کوئی شدت پسند مظاہرہ تھا نہ ہی کسی قسم کا انتشار بس فلسطینی ریاست کے حق میں ایک پرامن پیغام تھا جس پردنیا کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی متفق ہے لیکن اس پر جو ردِعمل سامنے آیا، وہ بتا رہا تھا کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ طاقتیں اس مطالبے کو برداشت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے غزہ امن منصوبے پر مسلم دنیا کے خدشات مزید گہرے ہونا شروع ہوتے ہیں۔ فلسطینی ریاست کے تصور پر صرف ایک پوسٹر لہرانے کو برداشت نہ کیا جا سکے، تو پھر یہ امن منصوبہ کس قسم کا امن ہے؟ امن کا مطلب تو فریقین کے درمیان مساوی حقوق اور متفقہ حل ہوتا ہے پر یہاں تو طاقت کا توازن پہلے سے زیادہ یکطرفہ کر دیا گیا ہے۔یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے امن سے زیادہ اطاعت اور اسرائیلی بالادستی کے اقرار کا معاہدہ محسوس ہورہا ہے۔درحقیقت آزاد فلسطینی ریاست کے بغیر کسی بھی امن منصوبے کو حقیقی امن کہنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ منصوبہ اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ اسرائیل اپنی مرضی کا نقشہ بنائے گا، اپنی مرضی کے فیصلے کرے گااور امریکہ عالمی سطح پر ان فیصلوں کو سیاسی جواز فراہم کرے گا۔ مسلم ممالک کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ اس منصوبے کو تسلیم کر کے اسرائیلی تسلط کو قبول کر لیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں مسلم ممالک کی پالیسی کمزوری اور وقتی مصلحت کا شکار نظر آتی ہے۔مسلم ممالک اجتماعی موقف اپنانے کے بجائے انفرادی سطح پر وقتی فائدوں کے لیے اسرائیلی اور امریکی ایجنڈے کے ساتھ چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ان کے پاس اپنی بات کرنے کی بھی گنجائش نہیں بچے گی۔ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے والے دو ارکان پارلیمنٹ کو ایک سیکنڈ میں باہر نکال دیا گیا، تو کل یہ حق مسلم ممالک سے بھی چھین لیا جائے گا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف بول سکیں۔امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی بالادستی کو قبول کرنا دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اب خطے میں طاقت کا مرکز صرف ایک ہوگا۔ یہ مرکز اسرائیل اور اس کا پشت پناہ امریکہ ہوگا۔ مسلم ممالک نے اجتماعی مزاحمت کے بجائے مصلحت کو ترجیح دی تو مستقبل میں اسرائیل جب چاہے جہاں چاہے فوجی کارروائی کرے گا اور امریکہ اس کی مکمل حمایت کرے گا۔ اس صورتِ حال میں فلسطینی عوام تو پہلے ہی زیرِ عتاب ہیں اب اس کے اثرات باقی مسلم دنیا پر بھی پڑیں گے۔ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جب کسی امن منصوبے سے بنیادی فریق یعنی فلسطینی عوام کی خودمختاری اور ریاست کا حق ہی نکال دیا جائے تو پھر وہ منصوبہ امن نہیں بلکہ سیاسی جبر کی ایک دستاویز بن جاتا ہے۔ اسرائیل اپنی سرزمین کے نقشے میں مسلسل توسیع کر رہا ہے، فلسطینی زمین پر قبضہ مزید مستحکم ہو رہا ہے، اور عالمی برادری محض مذمتی بیانات پر اکتفا کر رہی ہے۔ ایسے میں مسلم دنیا بھی اس منصوبے کو تسلیم کر لے تو یہ فلسطینی عوام کے ساتھ تاریخی بے وفائی ہوگی۔پاکستان، سعودی عرب،ترکیہ، قطر اور مصر جیسے اہم مسلم ممالک کے لیے یہ فیصلہ انتہائی حساس اور تاریخی نوعیت کا ہے۔ یہ ممالک اجتماعی پالیسی کے تحت فلسطین کے حق میں ایک مضبوط اور واضح موقف اختیار کریں تو حالات کا دھارا موڑا جا سکتا ہے۔اگر یہ ممالک امریکہ کے دباؤ یا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی لالچ میں اپنی پالیسی کمزور کر دیتے ہیں تو اس کے اثرات نہ صرف فلسطین بلکہ پورے خطے کی جغرافیائی سیاست پر پڑیں گے۔یہ معاملہ محض فلسطین تک محدود نہیں۔ اسرائیلی بالادستی کو تسلیم کرنا گویا مستقبل میں اپنی خودمختاری کے دائرے کو خود ہی محدود کرنا ہے۔ جب ایک جارح ملک کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو وہ محض ایک سرزمین پر قبضہ کر کے نہیں رکتا بلکہ پورے خطے پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتا ہے۔ امریکہ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ اسرائیل کا ہر حال میں ساتھ دے گا۔ اس تناظر میں مسلم ممالک کے لیے مصلحت پسندی کا مطلب اپنی کمزوری کا اعتراف ثابت ہو گا۔یہی وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنی اجتماعی آواز کو مضبوط کرے۔یہ وہ لمحہ ہے جب وقتی سیاسی و معاشی مفادات کو ایک طرف رکھ کر اصولی اور تاریخی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ آج فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے واضح اور اجتماعی لائحہ عمل اختیار نہ کیا گیا تو کل اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔غزہ امن منصوبہ بظاہر امن کا خاکہ ضرور پیش کرتا ہے پر اس کے اندر اسرائیلی بالادستی، فلسطینی عوام کی بے دخلی، اور مسلم دنیا کو کمزور کرنے کے حوالے سے شدیدخدشات موجود ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کمزوری اور مصلحت کے بجائے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی بھی منصوبہ امن نہیں بلکہ قبضے کو قانونی حیثیت دینے کی ایک نئی کوشش ہے۔اس وقت مسلم ممالک متحد ہو کر واضح پیغام دیں کہ فلسطینی ریاست کا قیام کسی بھی امن معاہدے کی بنیادی شرط ہے، تو اسرائیلی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔مسلم ممالک خاموش رہے یا مصلحت کا شکار ہو گئے تو آنے والی نسلیں اس خاموشی کی قیمت اپنی آزادی اور خودمختاری سے ادا کریں گی۔ بہرصورت فلسطینی عوام اورقیادت اس منصوبے کوقبول کررہے ہیں توپھراس منصوبے اورمعاہدے کی مخالفت کرناکسی صورت مناسب نہ ہوگا۔فقط غور،فکراورمستقبل کومندنظررکھتے ہوئے ضروری وضاحیتیں اورتبدیلیاں کرناناگزیرہوگا۔

Related Articles

Back to top button