کالمز

ناسمجھی کا دور، عبادت اور دکھاوا

لَپّے آااتییی اے دُو وا بن کے تمّنا میری
زندگی شمّہ کی سوراااتو خُدایا میری

سارا بچپن یہی بے مطلب و بے مقصد راگ الاپتے گزر گیا۔ بس اتنا پتا ہوتا تھا کہ اس سے پہلے اسکول نہ پہنچے تو ہماری تشریف لال کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ کبھی درست الفاظ سے بھی آشنائی نہ ہوسکی۔ صرف یہی نہیں، قومی ترانہ، نعتیں، اشعار، گانے اور غزلیں، جو بھی یاد تھے، سب بے مطلب تھے۔

آج ایک عمر گزار چکے تو آہستہ آہستہ سب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ فلاں بات تو یہ تھی اور اس کا مقصد یہ تھا۔ ہم بھولے، بچپن میں ان باتوں سے بے نیاز بس سنتے چلے آئے۔ اب اگر میں استاد بنوں تو روز سب سے پہلے بچوں کو روزمرہ زندگی کی اصطلاحات سمجھاؤں۔

بچپن میں جمعہ کے دن استاد جی کے بیان سے پہلے ایک گھنٹہ ہمارا ہوا کرتا۔ ہم سب دوست تیار ہوکر سفید کرتوں پاجاموں میں ملبوس سب سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرتے اور نعتوں کے ٹوٹے پھوٹے اشعار جو یاد ہوتے، اسپیکر پر بنا کسی ترنم کا تردد کیے پڑھ دیتے، اور پھولے نہ سماتے، جب کہ ہماری آواز کی گونج جب ہماری ماؤں کے کانوں میں پڑتی ان کی مامتا کی مسکراہٹ سے ہمارے گھروں میں میلاد سا چراغاں ہوجاتا۔

ایک بوڑھے بابا جی کسی ساتھ والی بستی سے اکثر مسجد آجاتے اور اسپیکر آن کرکے کچھ اس طرح کے اشعار پڑھتے:
بیڑا محمد والا، لیندا پیا تاریاں
جس نے مدینے جانا، کرلو تیاریاں
حاجیاں نے اُٹھ سویرے،
بہہ کے روزے دے نیڑے
رو رو کے سوہنے اَگّے،
عرضاں گُزاریاں
بیڑا محمد والا، لیندا پیا تاریاں

Related Articles

Back to top button