
آپ کی توجہ کا ہے طلبگار!
(کہیں علم کی روشنی کا سویرا)
(کہیں جہالت کا گھپ اندھیرا)
چوہدری غلام عباس پوڑ
حلقہ کوٹلہ 1975ء سے لے کر آج تک کبھی اپوزیشن میں نہیں رہا بلکہ تمام جمہوری ادوار میں حکومت کا حصہ رہا ہے۔ حلقہ کوٹلہ میں آبادی کے اعتبار سے کم و بیش(25) پچیس برادریاں /قبیلے آباد ہیں۔ جن میں گوجر، میر، مغل، اعوان، سادات، قریشی، عباسی، بمبہ(بنو امیہ)، پیرزادے، جرال، جنجوعہ، ترک، بھٹی، منہاس، شیخ، رانے،،پائر، ڈار، خواجگان، سواتی، اخوند زاد ے، پٹھان، بلوچ،جگوال، سہام، شامل ہیں۔ (اگر چہ میر ٹائٹل ہے مگر یہ مختلف قوموں کا خوبصورت گلدستہ ہے جن میں سوہلن، سلہریا، بھی ضم ہیں)۔
سردار، میر، چوہدری، ملک، خواجہ، قومیں نہیں سب ہی ٹائٹل ہیں۔ بلوچستان میں گوجر قبیلہ بھی میر کہلاتا ہے۔
درحقیقت تمام قومیں قبیلے پہچان ہیں، تعارف ہے۔ ورنہ سب ہی ایک آدم کی اولاد ہیں۔
اللہ تعالیٰ سورہ الحجرات میں فرماتا ہے کہ (یَٰٓأَیُّہَا?لنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَٰکُم مِّن ذَکَرٍ? وَأُنثَیٰ وَجَعَلْنَٰکُمْ شُعُوبًا وَقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوٓاْ? إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ?للَّہِ أَتْقَیٰکُمْ) ?”اے لوگو میں نے تمہیں پیدا کیا ایک مرد اور ایک عورت سے اور تمہارے قبیلے بنائے صرف تمھاری پہچان کے لیے، تم میں سے برتر وہی ہے جو تقوہ والا ہے”۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر عالم انسانیت کے لیے آفاقی دستور حیات میں ارشاد فرمایا کہ:”سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں پس کسی گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، سوائے تقوی’ کے۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر دنیا کے سارے مسلمان ایک قوم اور امت واحدہ ہیں۔”
سائنسی نقطہء نظر سے بھی سب انسانوں کا طریق? پیدائش ایک ہی ہے، سب کا تخلیقی مٹیریل بھی ایک جیسا ہے۔ کوئی سٹیل کا نہیں بنایا گیا۔ سب ہی گوشت پوست کے بنائے ہوئے انسان ہیں۔ صرف اعمال و افعال، عقائد ونظریات اپنے اپنے ہیں۔ جن کی بنیاد پر جزا وسزا رکھی گئی ہے۔ جنت و جہنم تیار کیے گئے ہیں۔
حلقہ کوٹلہ ایل اے 27۔LA مظفر آباد ون میں بسنے والا گوجر قبیلہ روا دار، نظریاتی اور جمہوری اقدار کا حامل رہا ہے، گوجر قبیلہ نے کوٹلہ میں اکثریت میں ہونے کے باوجود برادری ازم کی بجائے ہمیشہ سیاسی وابستگیوں اور نظریات کی بنیاد پر امیدواروں کو ووٹ دے کر اسمبلی ممبران منتخب کیا۔ لیکن گوجروں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی و وزرائے کرام نے گوجروں کے ساتھ سوتیلا سلوک اپنائے رکھا۔ گوجروں کی جمہوریت پسندی کو بزدلی، کمزوری اور نالائقی سمجھ کر خوب حق تلفی کی گئی۔
اس وقت کوٹلہ کے گوجر انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہر دور حکومت میں کسی بھی وزیر یا مشیر نے کوٹلہ کے کسی گوجر کی کوئی سیاسی ایڈجسٹمنٹ نہیں کروائی نہ ہی کبھی کسی صوابدیدی عہدے پر ایڈ جسٹ کیا بلکہ اقتدار کے ایوانوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ گوجر برادری کے نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند رکھے گئے۔ گوجروں کی اکثریتی آبادی والے بڑے بڑے دیہات کو تعلیم، صحت، ذرائع رسل و رسائل جیسی بنیادی ضرورت/سہولیات سے محروم رکھا گیا۔اس کے مقابلے میں دیگر چھوٹے بڑے دیہات کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا گیا۔ گوجروں کی اکثریتی آبادی والے دیہات جن میں (ہیرکٹلی، کلس گلوٹی، ٹڑہوتر، مسلم آباد، للو سیری، کلڑہ سیری، سید بٹہ، سریاں، بٹنگی شبیلہ، ریالی، کلتھیاں، چھکھڑیا، دھتورا، بانڈی کھٹانہ، بٹناڑہ، گراں کٹلی، ہڑیالہ، نلہ، کلس، صادقہ، سیری، چھکڑیاں، ڈنہ، دولیاڑ، مچھیارہ غربی، کولی، چمیاں کھیتر، پنجنند، کھیتر نکہ، مجہوتر، کیلگراں، اور گرٹناڑ شامل ہیں)کی پسماندگی دیکھ کر رونا آتا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی روشنی میں ” طَلَبُ اَلْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ ” (علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے)۔ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لیے متذکرہ دیہات میں تعلیمی ادارے ہی قائم نہیں۔ جہاں کہیں پرائمری یا مڈل سکولز ہیں وہاں سٹاف موجود نہیں ہوتا۔
اس وقت حلقہ کوٹلہ میں آبادی اور بچوں کی تعداد کے پیش نظر جن بڑے بڑے موضیعات/ دیہات میں جس سطح کے تعلیمی اداروں کے قیام/ اپ گریڈیشن کی فوری ضرورت ہے۔ ان میں ہیر کٹلی میں طلباء وطالبات کے لیے گرلز و بوائز ہائی سکولز؛ مسلم آباد میں گرلز ہائی سکول؛ سریاں میں بوائز و گرلز ہائی سکولز؛ شبیلہ میں مڈل سکول؛ دھتورا میں بوائز و گرلز ہائی سکولز؛ بانڈی کھٹانہ میں بوائز و گرلز مڈل سکولز؛ ہڑیالہ گراں کٹلی میں گرلز و بوائز مڈل سکولز؛ نلہ کلس میں گرلز مڈل سکول؛ سیرنیاں بٹدرہ میں بوائز ہائی سکول؛ صادقہ بالا میں گرلز و بوائز مڈل سکولز؛ چھکڑیاں میں گرلز مڈل سکول؛ مچھیارہ میں گرلز ہائی سکول؛ کیلگراں میں گرلزہائی سکول؛ مجہوتر میں بوائز مڈل سکول؛ اور گرٹناڑ میں بوائز مڈل سکول۔
مندرجہ بالا تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے گزشتہ چار دہائیوں سے مطالبات جاری ہیں۔ لیکن حلقہ کوٹلہ سے منتخب کسی ایم۔ ایل۔ اے نے گوجروں کے ان بڑے، بڑے موضیعات کے لیے تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ نہیں دی۔ ادارے نہ ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر گوجروں کے بچے،بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر سکے، ان پڑھ رہ گئے۔ بلکہ جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
تعلیمی اداروں کے علاوہ ان موضیعات کو صحت کے اداروں، ذرائع رسل و رسائل کی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
جہاں کہیں لنک روڈز بنائے جا رہے ہیں ان کے سروے اتنے خراب، گریڈ اتنے ٹف، چوڑائی اتنی کم، تعمیری معیار اتنا ناقص ہے کہ فور بائی فور جیپوں کے علاوہ دوسری گاڑیاں چلانا ممکن نہیں، جس کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
گوجر اکثریتی دیہات میں بسنے والے دیگر قبائل کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ”آپ کی اکثریتی آبادی میں، آپ کی نااتفاقی کی سزا ہم بھی بھگت رہے ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہم بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔”
اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اکھٹا ہونا اور مل کر آواز اٹھانا، کوٹلہ کے گوجروں کی مجبوری بن گئی ہے۔حلقہ کوٹلہ کے گوجر اجتماعی طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہو ئے ہیں کہ ہماری نسلوں کو تعلیم جیسی بنیادی سہولیات/ ضرورت سے محروم رکھنے والوں سے ووٹ کی پرچی کے ذریعے حساب لینا ہوگا۔
بصد افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے اکٹھا ہونے کو برادری ازم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ گوجروں نے قبل ازیں کوٹلہ کی مختلف برادریوں کو اپنے ووٹوں کے ذریعے (دو- دو) مرتبہ منتخب کر کے اسمبلی تک پہنچایا ہے۔ ان میں: سادات، میر، بنو امیہ(بمبہ)، عباسی اور (سوہلن سردار) شامل ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ گوجر برادری ازم کرتے ہیں۔ کچھ تو اللہ کا خوف کرو، عدل و انصاف اور مساوات کے تقاضے پورے کرو، قرض کی ادائیگی کا خیال رکھو۔
اب بھی سوچنے کا وقت ہے کہ!
جو ایم۔ ایل۔ اے۔ گوجروں کے مذکورہ موضیعات میں سابقہ حق تلفیوں کے ازالے کے ساتھ مطلوبہ تعلیمی ادارے قائم کرانے اور آبادی کے تناسب سے گوجر نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں حصہ دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ حلقہ کوٹلہ سے تاحیات ناقابل شکست بن سکتا ہے۔ کیونکہ گوجر قوم وفا کے بدلے وفا، احسان کے بدلے احسان، نیکی کے بدلے نیکی کرنے والی قوم ہے۔ جو اپنے ساتھ ہونے والے ہر سلوک کو نسلوں تک یاد رکھتے ہیں اور تعصب برتنے والوں سے حساب لینا بھی جانتے ہیں۔گوجر اب وعدوں پر نہیں عمل ہر یقین رکھتے ہیں!
گزشتہ عرصے میں صحت کا پیکج حلقہ کوٹلہ میں اس لیے نہیں لیا گیا کہ گوجروں کے موضیعات کے علاوہ اور کہیں بھی ضرورت ہی نہیں تھی۔ گوجروں کو یہ کہا گیا کہ ہم ہیلتھ پیکج کے بدلے دوگنا تعلیمی پیکج لائیں گے۔گوجروں نے بھی یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ ان پڑھ زندگی سے، پڑھی لکھی موت بہتر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تعلیمی پیکج میں مطلوبہ تعلیمی ادارے ملیں گے یا سوتیلے برتاؤ کی بنیاد پر صرف چند ایک ادارے اپ گریڈ کر کے ٹرخا دیا جائے گا۔
میرے خیال میں اس وقت حلقہ کوٹلہ کے گوجروں کو مطلوبہ تعلیمی پیکج، اور آبادی کے تناسب سے ملازمتوں میں کوٹہ کے ذریعے اپنا مستقل سپوٹرز بنانے کا بہترین موقع ہے۔ اگر اس بار بھی کوٹلہ کے گوجروں کو تعصب کی بھینٹ چڑھایا گیا تو پھر کوٹلہ کے گوجروں کو
سوچنا ہوگا کہ!
ان کی پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کی نسلوں کو جہالت کے اندھیرے میں رکھنے کا ذمہ دار کون ہے؟ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی روشنی میں نسلوں کے سامنے دنیا و آخرت کا ذمہ دار کون ہے؟ بار بار نظر انداز کیے جانے کی صورت میں ان مسائل کے حل کا ذمہ دار کون ہے؟ برابری کی بنیاد پر انسانی حقوق کا حصول کیسے ممکن ہے؟ کوٹلہ میں تعصبات کے خاتمے کیساتھ عدل و انصاف اور مساوات کا نظام قائم کیسے ہو گا؟
یہاں یہ امر قابلِ وضاحت ہے کہ ریاستی باشندے ہونے کی بنیاد پر اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے اکٹھا ہونا (برادری ازم نہیں بلکہ برابری ازم ہے)۔ اپنے مساوی حقوق کے حصول کی خاطر سب کو مل کر اس کا حل سوچنا ہوگا، سوچنا ہو گا، سوچنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنی آخری مقدس کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتا ہے
(اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَابِا?نفُسِہِم) (رعد:۱۱) ”اللہ تعالٰی اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے”
ظفر علی خان اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ!
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا”
ناراضگی معاف! یہ کوئی للکار نہیں، پکار نہیں، صرف سادہ سا مختصر تجزیہ ہے۔
خیر خواہ! چوہدری غلام عباس پوڑ۔
قدیمی مقیم کوٹلہ مظفر آباد۔
رابطہ نمبر: (03015258844)



