کالمزمظفرآباد

رینگنے کی آزادی اُڑنے پر پابندی

کے ایک ہزار سے زیادہ علما کی ایک کانفرنس میں جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔خلاف ورزی کرنے والے افراد کو باغی اور مخالف تصور کیا جائے گا ۔پانچ نکاتی اعلامیہ کا باضابطہ اعلان افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کیا۔اس وقت افغانستان کے چھ ہمسایہ ملکوں میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں بلکہ پاکستان واحد ملک ہے جسے افغان سرزمین اپنے خلاف استعمال ہونے کا شکوہ ہے ۔بات اب شکوے شکایتوں سے بھی آگے نکل کر جھڑپوں تک پہنچ چکی ہے اور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ دونوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی اور یوں دوستی اور دشمنی کے نئے نصاب دنیا کے سامنے آسکتے ہیں ۔افغان حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے اس اجلاس کی اہمیت پاکستان کے لئے بہت زیادہ ہے ۔گویاکہ طالبان حکومت نے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کا ایک شرعی سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا ہے ۔پاکستان میں اس عمل کی کوئی مثبت تشہیر نہیں ہوئی شاید اس لئے کہ اس وقت کابل اور اسلام آباد کے درمیان سب کچھ منفی ہونا ہی وقت کا فیصلہ اور ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے عوام کا مقدر ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں اور تجارت کے دروازے چمن اور طورخم گولہ باری کے باعث شکستہ ہوچکے ہیں ۔جن دروازوں کو باب دوستی قرار دیتے ہوئے تعمیر کیا گیا تھا آج اپنے ہی معماروں کے ہاتھوں عبرت کی تصویر بن گئے ہیں ۔بعض ایسی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جو اے آئی سے تیار کی گئی ہیں یا حقیقی ہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر افغانستان کی سمت سے طورخم گیٹ کے ساتھ دیواریں چن دی گئی ہیں ۔گویاکہ افغانستان نے پاکستان کے بغیر جینے کے راستے تلاش کرنا شروع کئے ہیں ۔یہ ناقابل عمل بھی ہے مگر اس وقت غصہ جس سطح پر پہنچ چکا ہے اس میں سب کچھ ممکن ہے ۔پاکستان کو گلہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہو کر خیبر پختون خوا میں دہشت گردی پھیلاتے ہیں تو افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستان اور اس کے عالمی مہربان افغانستان میں رجیم چینج کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ہمیں ٹی ٹی پی پر اعتراض ہے تو انہیں داعش پریوں یہ کہانی بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے ۔امریکہ بگرام ائر بیس پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور اسے بگرام ائر بیس القاعدہ کے خلاف نہیں بلکہ چین کے خلاف درکار ہے جس کا صدر ٹرمپ برملا اظہار کرچکے ہیں ۔یہ خواہش اور یہ خواب پاک افغان کشیدگی کو مزیدپیچیدہ اور گھمبیر بنا رہا ہے۔اس تنازعے کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مشرق اور مغرب کی سمتوں سے قرنطینہ میں چلا گیا ہے ۔بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع ہیں ۔اس ترکِ تعلق کی قوم عادی ہوچکی ہے اوراس کی وجوہات بھی ہیں ۔افغانستان کے ساتھ اس نوعیت کے ترک تعلق نے انہیں تو رلایا ہی ہوگا لیکن ہم بھی چین سے سونہیں سکے ۔ تجارت کی بندش کے باعث پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔پاکستان کی دو اہم ہمسایوں کے ساتھ سرحدیں بند ہیں ۔ایران کے ساتھ تجارت سے زیادہ سمگلنگ کا غیر قانونی تعلق جاری ہے اس کا قومی معیشت کو فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوتا ہے ۔پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے منصوبے جو پاکستان کو ترقی کے نئے ادوار سے آشنا کر سکتے تھے بند پڑے ہیں ایران اپنے حصے کا کام کر چکا ہے پاکستان کسی بیرونی حکمنامے کی تعمیل میں کام سے ہاتھ کھینچ چکا ہے۔ قرنطینہ کے اس ماحول میں چین واحد زمینی ہمسایہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کی تجارت جاری ہے ۔اس میں بھی عدم توازن یہ ہے کہ پاکستان کے پاس چین کو دینے کے لئے بہت کم ہے بس چین کی درآمدت کا عمل زوروں پر ہے ۔اس کے برعکس افغانستان نے تجارت کے متبادل ذرائع تلاش کر لئے ہیں۔افغانستان کی تجارت ازبکستان ترکمانستان اور تاجکستان کے ذریعے نہ صرف ان ملکوں سے جاری بلکہ روس کے ساتھ بھی چل رہی ہے ۔روس سے سستے تیل کی پہلی ٹرین کاہرات پہنچ چکی ہے ۔ایران کے ساتھ بھی تجارت جاری ہے اور چا بہار بندرگاہ کے ذریعے بھارت کے ساتھ بھی تجارت چل پڑی ہے ۔افغانستان اور چین واخان کے ذریعے تجارت بڑھارہے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ بھی طالبان حکومت کو دو ہفتے بعد چالیس ملین ڈالر دیتا ہے ۔یوں امریکہ کے ڈالروں کی مدد سے روس سے سستا تیل خریدا جا رہا ہے۔ملکوں کے لئے سب سے موزوں تجارت ہمسایوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس میں لاگت بھی کم آتی ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے۔اس طرح ڈیڑھ ارب آبادی کاحامل بھارت حالات کے جبر کی وجہ سے ہماری منڈی نہیں ۔افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہونے سے ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہے ۔بس چین سے بیس ارب ڈالر کی تجارت پر ہماری قومی دھمالیں تھمتی ہی نہیں۔امریکہ کی طرف سے سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ صدرٹرمپ سات طیارے گرنے کا راگ چھیڑتے ہیں اور ہم مسحورہوجاتے ہیں اس امید پر کل ان کی تعداد آٹھ دس بھی ہو سکتی ہے ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ سات طیاروں کی داستان کے سحر میں گم ہونے سے پاکستان کے معاشی مسائل ختم نہیں ہو سکتے۔ملک کے جانے پہچانے صحافی کامران خان پاکستان کے معاشی طور پر اوپر جانے کے خواب دیکھنے اور دکھانے والوں میں نمایاں رہے ہیں۔اب وہ بھی مایوس سے ہو کر کچھ یوں فرمارہے ہیں۔‘‘پاکستان کی معیشت واقعی فریز ہو رہی ہے پاکستان بزنس کونسل اور ایس آئی ایف سی ایک دردناک حقیقت بیان کر رہے ہیں۔معیشت کو زندہ رکھنے کے لئے فوری سرجری ناگزیر ہوچکی ہے ۔پاکستان کی معیشت اس وقت جمود کا شکارہے۔جی ڈی پی گروتھ مسلسل ڈیڑھ سے دوفیصد کے درمیان سسک رہی ہے کل انوسٹمنت بھی ختم ہو چکی ہے’’۔ دسمبر کا مہینہ ہے اور مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے کچھ ہی دن بعد کا شیخ مجیب الرحمان کا مغربی صحافی کو دیا گیا انٹرویو ان دنوں محو گردش ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے دو سو کروڑ اُدھار لئے ہیں اس رقم کا بہت چھوٹا حصہ بنگلہ دیش میں لگا ہے ۔دیکھتے ہیں وہ یہ قرض کیسے ادا کریں گے۔میں اب پاکستانی نہیں ہوں بنگلہ دیشی ہوں ۔اب میری کوئی ذمہ داری نہیں ۔پاکستان اپنے قرضے ادا نہیں کر سکے گا۔یہ بات اتنی تازہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمان کی زبان سے مشرقی پاکستان کے الفاظ ادا ہوتے ہیں پھر وہ اصلاح کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں میں تو بچ جاؤں گا مگر پاکستان اپنے قرضے ادا نہیں کر سکے گا’’۔یہ بات آج بھی حقیقت ہے کہ پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور اس کی آنے والی نسلیں بھی جرم بے گناہی میں مقروض ہوتی جا رہی ہیں ۔یہ سب بے سبب نہیں کیونکہ صیاد کا فیصلہ ہے کہ پاکستان کو رینگنے کی آزادی تو ہوگی مگر پر لگا کر اُڑنے کی اجازت نہیں ۔ہم صدق دل سے یہ عہد کئے بیٹھے ہیں کہ ہم نے اس جال اور پنجرے کو توڑنا ہے نہ چھوڑنا۔ کسی بھی دور میں کسی بھی موڑ پرجو اس کو توڑنے اور چھوڑنے کی بات کرے گا اسے نہیں چھوڑنا ۔

Related Articles

Back to top button