وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فیصل راٹھور کے نام کھلا خط

مکرمی و محترمی جناب راجہ فیصل ممتاز راٹھور صاحب وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر۔
شائد مجھے اتنی توفیق اور ہمت نہ ہوتی کہ میں بالواسطہ جناب من کے نام خط تحریر کر کہ اپنے مسائل سے آگاہ کرتا، کیونکہ یہ دنیا آزمائش گاہ ہے اور ہر شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ چل رہا ہے۔لیکن چونکہ آپ دلوں کے حکمران راجہ ممتاز حسین راٹھور کے فرزند ہیں اس لئے مجھے با امر مجبوری پرنٹ میڈیا کے ذریعے آپ تک اپنی کہانی پہنچانے کی ہمت نصیب ہوئی۔ ویسے بھی ممتاز حسین راٹھور آزاد کشمیر بھر کے ہر دلعزیز لیڈر تھے لیکن تحصیل دھیرکوٹ کے ساتھ ان کا تعلق مخصوص نوعیت کا تھا۔ مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ عین شباب کے عالم میں جب ریاست کی حالت دگر گوں ہے آپ کے کندھوں پر وزارت عظمیٰ کا بھاری بوجھ ڈال دیا گیا ہے اور شائد آپ میرے معمولی مسئلے کو نہ سمجھ سکیں لیکن خریداران یوسف کی مانند اس بڑھیا کا کردار ادا کر رہا ہوں جو روئی کاتنے والی تھی اور بڑے بڑے تاجروں کے جھرمٹ میں یوسف کو خریدنے جا پہنچی۔
جناب وزیر اعظم! مجھے اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ مجھ جیسے عام آدمی کی حیثیت اس ملک میں کیا ہے جہاں اشرافیہ کا راج ہے اور شائد مجھے سالوں لگ جائیں تب بھی میں جناب سے دو بدو ملاقات نہ کر سکوں۔کیونکہ یہ ہمارے ملک کا رواج ہے کہ اہمیت اسی کو دی جاتی ہے جس کا معاشرے میں کوئی اہم مقام ہو یا وہ صاحب حیثیت ہو۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ آپ کی حکومت کے اکثر لوگ جو اہم جگہوں پرتعینات ہیں سے میری ذاتی شناسائی بھی ہے اور جناب سے بھی کسی حد تک میں ذاتی طور پر واقف ہوں اور ہماری ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔سردار جاوید ایوب میرے بھائیوں کی طرح ہیں۔ میاں عبدالوحید میرے محسن و مربی ہیں۔ سید بازل علی نقوی میرے یونیورسٹی فیلو اور پی ایس ایف کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ شوکت جاوید میر سے میرے ذاتی مراسم ہیں۔ شوکت راٹھور خاکسار میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں۔ ان سب باتوں نے مجھے مزید ہمت دی کہ میں یہ خط پرنٹ میڈیا پر چھپوانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اب نجانے ایڈیٹر صاحبان اسے صرف ایک فرد کا مسئلہ سمجھ کر نجانے اخبارات میں چھاپتے بھی ہیں یا نہیں لیکن پھر بھی امید پر یہ خط تما م ریاستی اخبارات کو ای میل کر رہا ہوں۔ ایڈیٹر صاحبان کی مہربانی کہ وہ اسے شائع کر دیں ورنہ مجھ سا بے بس شخص ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔
جناب وزیر اعظم! راقم کا تعلق ضلع باغ،تحصیل دھیرکوٹ کے ایک گاؤں پیل سے ہے۔جناب کے والد محترم جب وزیر اعظم تھے تو وہ میرے تایا جی راجہ محمد آزاد خان کسٹوڈین متروکہ کے جنازے میں شرکت کے لئے ہمارے گاؤں پیل گھوڑوں پر تشریف لائے تھے۔ میرے والد محترم کا بھی آپ کے والد اور سربلند راٹھور صاحب سے گہرا تعلق تھا۔ میرے والد بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
اب میری دکھ بھری معمولی سی داستان سماعت فرمائیے۔ 16نومبر2024ء کو ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں راقم کا موٹر بائیک ٹرک سے ٹکرا گیا۔ حادثے تو ہوتے رہتے ہیں یہ بھی معمول کا حادثہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو حادثات پیش آئے انہوں نے راقم جیسے سخت اور بردبار انسان کو بھی ریزہ ریزہ کر دیا۔ راقم کو ڈی ایچ کیو باغ سے ابتدائی طبی امداد کے بعد اسلام آباد ریفر کر دیا گیا۔راقم کی بائیں ٹانگ کریشڈ انجرڈ تھی۔ہولی فیملی ہسپتال اسلام آباد میں راقم کی ٹانگ گھٹنے کے اوپر سے کاٹنی پڑی۔ وہاں سے مجھے پریمئر انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد ریفر کر دیا گیا۔ چونکہ ذخم بڑا تھا اور تھائی کٹی ہوئی تھی اس لئے اینٹی بایؤ ٹکس اور پرائیویٹ کئیر کے بغیر راقم کی جان بچنا محال تھی۔ چونکہ پریمئر انٹرنیشنل ایک پرائیویٹ ہسپتال ہے اس لئے راقم کے عالج معالجے کا بل جب ایم ایس باغ اور ڈی ایچ او باغ کو پیش کیا گیا تو انہوں نے وزیر اعظم کی سپیشل نرمی کی شرط عائد کر دی۔ اس لئے پہلی گزارش ہے کہ راقم کے علاج معالجے کے بل کی منظوری عطا فرمائیں تا کہ ایک ٹانگ سے معذور شخص دوبارہ زندگی کی طرف رواں دواں ہو سکے۔
جناب وزیر اعظم! راقم گورنمنٹ انٹر کالج ملوٹ میں سینئر بیالوجی ٹیچر ہے۔ راقم کی رہائش باغ شہر میں ہے کیونکہ راقم کے بچے باغ سکولز میں زیر تعلیم ہیں اور مسز گزشتہ 8سالوں سے باغ سے تقریبا 35کلو میٹر دور تمروٹہ پیل میں ایلیمنٹری معلمہ کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔باغ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے راقم کو قریبا 17کلو میٹر یک طرفہ فاصلہ طے کر کہ جائے تعیناتی پر پہنچنا پڑتا ہے۔ جناب من کو بخوبی احساس ہو گا کہ ایک ٹانگ کے بغیر اتنا سفر کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اس حوالے سے راقم جناب سے تحت ضابطہ درخواست کرتا ہے کہ میرا تبادلہ پائلٹ ہائی سکول باغ میں کیا جائے جو کہ عین انسانی ہمدردی اور قانونی اور جائز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میری مسز کا تبادلہ بھی نرمی دے کر غربی باغ کے دور دراز علاقے تمروٹہ پیل سے باغ کے کسی سکول میں کیا جا ئے تا کہ ایک بال بچوں والی خاتون روزانہ کئی میل کے سفر سے نجات حاصل کر سکے اور اپنے گھر پر بھی توجہ دے سکے کیونکہ میری ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے گھر کے سبھی کام بھی اسے ہی کرنا پڑتے ہیں۔ اس حساب سے ہم دونوں کا تبادلہ باغ میں کروانا جناب کی ذمہ داری ہے۔
جناب وزیر اعظم! راقم کی ٹانگ کٹنے کی وجہ سے راقم کو سپیشل کنوینس الاؤنس ملنا چاہئے تھا جس کی تحریک راقم کر کہ نظامت تعلیم کو ارسال کر چکا ہے لیکن تا حال سپیشل کنوینس الاؤنس کی منظوری نہیں مل سکی۔ اس سلسلے میں جناب والا نظامت اور سیکرٹری تعلیم کو خصوصی ہدایت فرمائیں کہ سپیشل کنوینس الاؤنس جو کہ راقم کا حق ہے وہ منظور ہو سکے۔
جناب وزیر اعظم! راقم نے گاؤں میں مکان کی تعمیر شروع کی تھی لیکن حادثے کے باعث صرف بلاکس کی دیواریں لگ سکی ہیں۔ اب چونکہ بچوں کی فیسیں اور باغ میں کرائے کے مکان میں رہائش اور باغ سے ملوٹ تک اور باغ سے تمروٹہ تک کا پبلک سروس کا کرایہ اتنا بن جاتا ہے کہ راقم اپنے بچوں کے لئے چھت کا انتظام نہیں کر سکتا۔ راقم نے ایچ بی اے کے لئے بھی تحریک کر رکھی ہے لیکن شنوائی نہ ہونے کے باعث ایچ بی اے نہ ہونے کی وجہ سے راقم ذاتی گھر بنانے سے محروم ہے۔ اس سلسلے میں بھی آپ سے درخواست ہے کہ راقم کے ایچ بی اے کی منظوری تحت ضابطہ فرمائی جائے۔ تا کہ راقم اور بچوں کو اپنی چھت نصیب ہو سکے۔
جناب وزیر اعظم! اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آپ کسی بھی متعلقہ آفیسر سے راقم کی ٹیچنگ مہارت کے بارے میں معلومات لے سکتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے راقم کا رزلٹ سو فیصد ہے۔ لیکن پھر بھی ایک ٹانگ کے بغیر مزید سروس کرنا شائد کہ مشکل ترین کام ہو گا، اس لئے اگر راقم کو میڈیکل کیٹیگری اے کی بنیاد پر ملازمت سے ریٹائرڈ کیا جائے تو جناب من کی عین نوازش ہو گی۔
جناب وزیر اعظم! مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ آپ ریاستی امور میں بے حد مصروف ہیں لیکن حضرت عمر فاروقؓ کے قول کے مطابق اگر فراط کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا یا پیاسا مر جائے تو اس کی بابت اللہ عمرؓ سے پوچھے گا۔ اسی امید کے ساتھ کہ آپ اگر مجھے خود ٹائم دیں اور میں آپ تک اپنے سارے متعلقہ ڈاکومنٹس پہنچاؤں یا اپنے کسی ذمہ دار فرد کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ میرے ان مسائل کو جو کہ قطعی جائز اور قانونی ہیں کو حل کر سکے۔ جناب وزیر اعظم! گستاخی معاف لیکن اگر اسی کسمپرسی میں راقم کی زندگی رلتی رہی اور راقم کے بچے در بدر رہے تو روز محشر شائد میں نہ بھی چاہوں تو وہ عادل اور انصاف پسند اللہ شائد میری بابت آپ کا گریبان پکڑے۔ بمہربانی جناب والا میرے کام تحت ضابطہ اور قانون کے دائرے میں رہ کر حل کروانے کے احکامات صادر فرمائیں۔ ویسے بھی آپ نوجون اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں اس لئے میرے جائز کام بھی کروا کر اپنی مقبولیت میں مزید اضافہ فرمائیں۔
والسلام
مخلص۔ راجہ شہزاد احمد خان۔ سینئر بیالوجی معلم۔
تحصیل دھیرکوٹ، ضلع باغ۔ آزاد کشمیر۔
فون نمبر:0300-9148820




