”دل پھر طواف ِکوئے ملامت کو جائے ہے“

وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک سرسر ی او ر ایک باقاعدہ ملاقات کی تو یوں لگا کہ کسی شخٰص کو ہفت اقلیم کی بادشاہی مل گئی ہو۔ایکس سے سرکاری میڈیا تک یوں دھمالیں ڈالی گئیں کہ جیسے پہلی بار کسی پاکستانی حکمران کا وائٹ ہاؤس میں خیر مقدم کیا گیاہو۔پہلی بار امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اوجِ کمال کو پہنچے ہوں اور پہلی بار پاکستان کو امریکہ کی مہربان چھاؤں میسر آئی ہو۔حقیقت تو یہ ہے جس تعلق کی تجدید پر خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں اسے امریکہ کے ہی ایک محقق اور مصنف نے اپنی کتاب”نوایگزٹ فرام پاکستان“ میں تکلیف دہ تعلق کا نام دیا ہے۔ابھی پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر ہاہا کار مچی ہوئی تھی کہ ٹرمپ کی دربار کی حاضری نے ایک اورجشن منانے کا موقع فراہم کیا۔”ایک تصویر کا سوال ہے بابا“کے انداز میں کھلونوں سے بہلنے والے پاکستانی حکمرانوں کی ساری کائنات ہی ایک فوٹو سیشن ہوتی ہے۔یہ الگ بات کی ایک تصویر کی یہ خواہش قوم کو بہت مہنگی پڑتی رہی ہے۔لیاقت علی خان کے پہلے دورے سے ہی تصویروں اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چل رہا ہے مگر اس تکلیف دہ تعلق نے پاکستان کو اب تک دیا ہی کیا ہے؟۔ ایسے دفاعی معاہدے اور دفاعی سودے جو اس ملک کو دولخت ہونے سے نہ بچا سکے۔ایسے اسلحے اور ایسے معاہدوں کا کیا کرنا جو مشکل وقتوں میں کام نہ آسکے۔برطانیہ نے ہمیں آزاد کر کے امریکہ کے حوالے کیا اور تب سے پاکستان اسی کھونٹے سے بندھا چلا آرہا ہے۔جنرل حمید گل کے بقول ہمیں ایک ملک کو دے دیا گیا مگر آزادی نہیں ملی۔امریکہ نے بھی اس وقت سے ہی ہمیں اتنا سینت سینت کر اور سینے سے لگائے رکھا ہے کہ ہمیں روس چین ایران افغانستان سمیت بہت سے ملکوں سے ایک حد تک ہی تعلق بنائے اور نبھائے رکھنے کی آزادی ہے۔ہمارا بجٹ تو باہر سے ہی بنتا ہے ہمارے خارجہ تعلقات کے پیرا میٹرز اور اوزان وپیمائش کے پیمانے بھی باہر سے بن کر آتے ہیں۔شاید اسی کیفیت کو فیض احمد فیض نے داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر کہا تھا۔نوایگزٹ فرام پاکستان کے مصنف کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تکلیف دہ تعلق میں امریکہ پاکستان کے ناز نخرے نہیں اُٹھاتا بس ڈالر پھینکتا اور اس وقت کی اپنی ضرورت پوری اور مجبوری دور کرتا ہے۔پاکستان کے حکمران بھی کچھ ادائیں اور ناز نخرے دکھا کر بصد ِ شوق اشرفیوں کی پوٹلی وصول کرکے بروئے کار آتے چلے جاتے ہیں۔پچاس کی دہائی میں گندم سے لدے اونٹوں کے گلوں میں لٹکتے ہوئے ”تھینک یو امریکہ“ کے کتبوں سے شروع ہونے والی کہانی سے اسی کی دہائی میں ضیاء الحق کی طرف سے امریکی امداد کی پیشکش کو پہلے مونگ پھلی کر کہہ کر مسترد کرنے اور اگلے ہی لمحے اسے من وسلویٰ سمجھ کر وصول کرنے کی داستان تک،امریکی امداد کے کیری لوگر بل کو قومی سلامتی اور خودمختاری پر وار قرر دینے اور لوکل میڈیا میں ہنگامہ برپا کرنے کے بعد اسے خاموشی سے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ہضم کر نے تک اس تعلق کی کہانی بہت متحیر کردینے والی ہے۔جس میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ کے موڑ بھی آتے ہیں۔ اس کہانی میں میمو گیٹ ڈان لیکس اور اباسلیوٹلی ناٹ کے ادوار بھی آتے ہیں۔اطاعت اوروفا کی تمام داستانیں رقم کرنے کے بعد ایوب خان فرینڈز ناٹ ماسٹرز لکھ کر دل کے پھپھولے جلا نے پر مجبور ہوتے ہیں۔ضیاء الحق تو یہ سمجھتے ہیں کہ اب مونگ پھلی سے شروع ہونے والا تعلق اٹوٹ اور لازوال ہے مگر جب ان کا ستارہ گردش میں آنے لگتا ہے تو امریکی سفیر کو لائف سیونگ جیکٹ اور ہیومن شیلڈ کے طور پر اپنے ساتھ چپکائے رکھتے ہیں مگر ایک سہ پہر ان کا جہاز لڑکھڑانے لگتا ہے اور لائف سیونگ جیکٹ بھی کسی کام نہیں آتی اور سارے مسافر اگلے جہان سدھار جاتے ہیں۔صدر ریگن کا ایک سطری بیان آتا ہے کہ ہم خطے میں اپنے ایک بہترین دوست سے محروم ہوگئے ہیں۔آخر میں بس یہ ایک سطری بیان ہی وفاؤں کا ماحاصل ہوتا ہے۔جنرل پرویز مشرف کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دردناک ہے۔فرینڈ ناٹ ماسٹرز کے مصنف کی طرح وہ بھی سب سے پہلے پاکستان میں امریکہ کے لئے اپنی خدمات گنواتے ہیں۔القاعدہ اور طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کی باتیں ضبط تحریر میں لائیں مگرجب مخالفین نے انہیں گھیر لیا تو جنرل پرویز مشرف نے پلٹ کر وائٹ ہاوس فون کیا۔صدر اوباما کے نمبر سے جواب ملا۔آپ کے نمبر پر مطلوبہ سہولت میسر نہیں۔یہ وہی پرویز مشرف تھے جن کا شنگریلا میں بش دوئم نے شاندار استقبال کیا تھا اور شنگریلا کے اسی جنت نما ماحول میں دونوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عہدوپیماں ہوئے تھے۔یہ پاکستان کے طاقتور فوجی حکمرانوں کی امریکہ کے ساتھ تعلق کی کہانی ہے۔بے چارے سویلین حکمرانوں کی اوقات ہی کیا وہ امریکہ سے قریب ہوں تو اپنے ناراض ہوتے ہیں اور اپنوں کے قریب ہوں تو امریکہ ناراض ہوتا ہے گویا کہ وہ اس تکلیف دہ تعلق کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے چلے جاتے ہیں۔اس لئے جو تصویر شہباز شریف حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے ہیں پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ اس سے زیادہ خوبصورت اور بامعنی تصویروں سے مزین اور عبارت ہے۔اس سے زیادہ مضبوط کرداروں کے ساتھ اس سے زیادہ گرم جوش باڈی لینگوئج کے ساتھ موجود ہیں مگر ہر تصویر کے بعد پاکستان پہلے جیسا ہی رہتا تو اچھا تھا پہلے سے زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتا رہا۔ بقول غالب۔
دل پھر طواف کُوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے