
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی نہ صرف اپنے عہد کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ علم، خدمت، سچائی اور عاجزی کی مثال قائم کرتے ہیں۔ پروفیسر (ر) طارق مقبول گیلانی انہی نایاب شخصیات میں سے تھے، جنہوں نے اپنی علمی اور اخلاقی شخصیت سے ہر دل میں احترام اور عقیدت پیدا کی۔ گزشتہ روز ان کے انتقال کی خبر نے مظفرآباد، آزاد کشمیر اور علمی حلقوں میں ایک گہرا صدمہ پیدا کیا۔ ان کی نماز جنازہ سہ پہر تین بجے سہیلی سرکار دربار میں ادا کی گئی، جبکہ بعد از نماز مغرب ان کی دوبارہ نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ تدفین بھی آبائی گاؤں ککڑواڑہ ضلع جہلم ویلی میں کی گئی، نمازجنازہ میں سیاسی سماجی کاروباری شخصیات ان کے شاگرد، ساتھی اساتذہ، اہلِ علاقہ اور علمی و سماجی حلقوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی، جس نے ان کے علمی اور انسانی کردار کا اظہار کیا۔ پروفیسر گیلانی کا تعلق ککڑواڑہ کے معزز و معتبر ساداتِ گیلانیہ خاندان سے تھا۔ یہ خاندان علم، شرافت اور خدمتِ خلق کے لیے مشہور ہے۔ پروفیسر گیلانی خود ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دنیاوی عیش و عشرت کے باوجود انتہائی عاجز اور منکسر المزاج انسان تھے۔
وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ
“جتنا انسان بلند علم اور مقام رکھتا ہے، اتنی ہی عاجزی اس کا ضامن ہونی چاہیے۔”
یہ سچائی ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں نظر آتی تھی۔ نہ کبھی غرور کیا، نہ تکبر کا مظاہرہ کیا۔ ان کے ساتھ بیٹھنا، ان کے علم سے مستفید ہونا اور ان کے اخلاق سے متاثر ہونا ہر شاگرد کے لیے باعثِ فخر تھا۔
علم کی خدمت اور جیالوجی میں انکی نمایاں خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی پروفیسر گیلانی نے اپنی زندگی جیالوجی (Geology) کے شعبے میں تحقیق اور تدریس کے لیے وقف کر دی تھی۔ جامعہ کشمیر میں بطور استاد وہ نہ صرف اپنے علم بلکہ اپنی اخلاقی وسعت کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ ان کے لیکچرز میں صرف معدنیات، زمین کی ساخت یا ارضیاتی عمل کی معلومات نہیں ہوتی تھیں بلکہ زندگی کی گہرائی، قدرت کے اسرار اور تخلیقِ کائنات کی سچائی بھی واضح ہوتی تھی۔ انہوں نے کشمیر کے قدرتی وسائل، معدنی ذخائر اور زمین کی جغرافیائی حیثیت پر متعدد تحقیقی مقالے تحریر کیے، جنہیں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی علمی حلقوں نے بھی سراہا۔
ان کے شاگرد اکثر یہ کہتے ہیں کہ
“سر گیلانی ہمیں زمین کے راز بتاتے تھے، مگر ہمیں یہ بھی سکھاتے تھے کہ علم کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔”
سادگی، عاجزی اور اخلاقی برتری: پروفیسر گیلانی کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی سادگی اور عاجزی تھی۔ جاگیردار خاندان سے تعلق، اعلیٰ تعلیم، اور دنیاوی سہولیات ہونے کے باوجود وہ اپنی زندگی کو انتہائی سادہ انداز میں گزارتے تھے۔ وہ کبھی اپنی علمی قابلیت یا عہدے کا رعب نہیں دکھاتے تھے۔ شاگردوں اور دوستوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ، شفیق اور رہنمائی کرنے والا ہوتا تھا۔
ان کے ایک شاگرد نے جنازے کے موقع پر کہا: >“سر گیلانی نے ہمیں صرف جیالوجی نہیں پڑھائی، بلکہ زندگی گزارنے کا انداز بھی سکھایا۔ وہ علم میں بلند اور اخلاق میں اعلیٰ تھے۔”یہ جملہ ان کی شخصیت کی پوری تصویر پیش کرتا ہے، جس میں علم، اخلاق، اور انسانی وقار کا حسین امتزاج موجود تھا۔
خاندان کی خدمت اور علاقے کے لیے کردار: طارق مقبول گیلانی نہ صرف ایک محقق اور استاد تھے بلکہ اپنے علاقے کے لیے بھی ہمیشہ فعال رہے۔ وہ تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے حامی تھے اور کئی مواقع پر نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ ان کی شخصیت میں علم و سیاست، سماجی شعور اور اخلاقی قیادت کا حسین امتزاج ملتا تھا۔ پروفیسر گیلانی کی شخصیت میں ایک اور نمایاں خصوصیت ان کی کشمیری شناخت اور وطن سے محبت تھی۔ انہوں نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حقوق، ثقافت اور علم کی بقاء کے لیے کام کیا۔ ان کے مطابق علم کا حقیقی مقصد نہ صرف ذاتی فخر حاصل کرنا ہے بلکہ اپنے علاقے اور قوم کی ترقی میں حصہ ڈالنا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحقیق اور تدریس ہمیشہ مقامی مسائل، قدرتی وسائل کی بقا اور نوجوان نسل کے مستقبل سے منسلک رہی۔ پروفیسر گیلانی کے شاگرد آج بھی ان کے نظریات، ان کے لیکچرز اور ان کے اخلاق کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، جن میں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کئی ماہرین شامل ہیں۔ جامعہ کشمیر میں ان کا نام ہمیشہ عزت اور احترام کے ساتھ لیا جائے گا، اور ان کا علمی ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے گا۔ پروفیسر گیلانی کی وفات ایک عظیم خسارہ ہے۔ جامعہ کشمیر، مظفرآباد اور پورے کشمیری معاشرے نے ایک مخلص استاد، محقق اور انسان دوست شخصیت کو کھو دیا ہے۔ان کی علمی خدمات، تحقیق، تدریس اور اخلاقی قیادت کا خلا شاید طویل عرصے تک پُر نہ ہو سکے۔ پروفیسر گیلانی نے اپنی زندگی ہمیں یہ سبق دیا کہ علم صرف کتابوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت اور معاشرتی بھلائی ہے۔ ان کی شخصیت نے ہمیں یہ بھی دکھایا کہ اعلیٰ نسب، علم اور دنیاوی سہولیات کے باوجود انسان جتنا عاجز اور شفیق ہو سکتا ہے، اتنا ہونا چاہیے >“زمین انسان کو سکھاتی ہے کہ جتنا اونچا اٹھے، اتنا ہی جھکنا ضروری ہے — ورنہ وجود بکھر جاتا ہے۔ پروفیسر طارق مقبول گیلانی کا سفرِ زندگی علم، خدمت، عاجزی اور کردار کی روشنی میں گزرا۔ ان کی وفات ایک عہد کا خاتمہ ہے، لیکن ان کا علمی، اخلاقی اور سماجی ورثہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل دے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭




