ریاستی باشندہ: سو سال پرانا قانون اور اکیسویں صدی کے تقاضے

انیسویں صدی کے آخری برسوں اور بیسویں صدی کے آغاز میں جب غیر ریاستی تاجروں، سرمایہ کاروں اور انگریز حمایت یافتہ افسروں کی آمد بڑھنے لگی تو کشمیری عوام کے اندر یہ احساس شدت سے ابھرنے لگا کہ باہر سے آنے والے لوگ ان کی زمین، روزگار اور شناخت پر قبضہ جمانے کے درپے ہیں۔ یہ خوف رفتہ رفتہ ایک اجتماعی مطالبے میں بدل گیا، جس کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ نے 20 اپریل 1927ء کو“Notification No. I-L/84”کے ذریعے Hereditary State Subject Rule نافذ کیا، جسے بعد ازاں 1932ء میں مزید مضبوط کیا گیا۔
اس قانون نے ریاستی باشندوں کو چار واضح درجوں میں تقسیم کیا:
درجہ اوّل: وہ خاندان یا فرد جو 1911ء سے پہلے ریاست کا مستقل باشندہ تھا اور جس کے آبا و اجداد ریاست میں پیدا ہوئے تھے۔
درجہ دوّم: وہ شخص جو کم از کم دس برس سے ریاست میں رہ رہا ہو اور کسی مستقل پیشے سے وابستہ ہو۔
درجہ سوّم: وہ فرد جسے مہاراجہ کی حکومت نے خصوصی اجازت سے ریاست میں سکونت کا حق دیا۔
درجہ چہارم: وہ کمپنیاں یا ادارے جو ریاست میں رجسٹرڈ ہوں اور ریاستی معیشت یا مالی ڈھانچے کے لیے فائدہ مند سمجھے جائیں۔
یہ قانون اگرچہ بظاہر Domicile اور State Identity کی ایک شکل تھی، مگر یہ نیشنلٹی نہیں تھی۔ کیونکہ برطانوی ہندوستان کے باشندے قومی حیثیت کے طور پر British Indian تھے، جب کہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر یہ قانون دراصل مقامی حقوق، زمین، ملازمت اور شناخت کے تعین کے لیے بنایا گیا تھا۔
2019 کے بعد کا منظرنامہ: 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اس کے زیر انتظام ریاست سے آئین کی دفعات 370 اور 35A کے ساتھ وہ تمام خصوصی قوانین بھی ختم کر دیے جو کشمیریوں کو ریاستی باشندہ ہونے کی حیثیت سے حاصل تھے جبکہ گلگت بلتستان میں بھی یہ قانون ستر کی دھاء سے سبوتاژ ہو چکا ہے—یوں آزاد کشمیر ہی وہ واحد خطہ ہے جہاں یہ قانون آج بھی جوں کا توں نافذ ہے، جیسا کہ ڈوگرہ عہد میں تھا۔
آزاد کشمیر میں آج بھی State Subject Certificate درج ذیل معاملات کے لیے بنیادی قانونی حیثیت رکھتا ہے:
• زمین و جائیداد کی خرید و فروخت
• سرکاری ملازمت
• تعلیمی وظائف
• شناختی دستاویزات اور ڈومیسائل
مقبوضہ کشمیر میں اصطلاح کی تبدیلی
1957ء کے آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے اس قانون کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔
State Subject کے بجائے اصطلاح Permanent Resident of the State اختیار کی گئی، اور فیصلہ ہوا کہ:
• جو شخص 14 مئی 1954ء سے پہلے ریاست میں آباد تھا وہ مستقل باشندہ ہوگا؛
• جو بعد ازاں حکومت کی اجازت سے مستقل سکونت اختیار کرے وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا۔
مگر 2019 کے بعد بھارتی قوانین نے غیر مقامی افراد کے لیے بھی زمین کی خریداری کا دروازہ کھول دیا، جو کشمیریوں کے لیے انتہائی حساس سوالات جنم دیتا ہے۔ آزاد کشمیر—سو سال پرانا قانون اور آج کی ضرورت: آزاد حیثیت کے دعوے کے باوجود ہمارے ہاں اس قانون کو آج تک عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ یہ قانون ایک ایسی ریاست کے لیے بنایا گیا تھا جہاں بادشاہت تھی اور وفاداری براہِ راست مہاراجہ کے ساتھ۔ آج کا سیاسی، معاشی اور آئینی ماحول اس سے یکسر مختلف ہے۔ معاشرتی تبدیلی، شہری حقوق، روزگار، سرمایہ کاری اور مالیاتی اداروں کی ضرورت اس قانون کی جدید تشریح کی متقاضی ہے-
قانون میں ضروری اصلاحات—تین بنیادی نکات: 1.“State Subject”کی جگہ“مستقل باشندہ ریاست”کی اصطلاح اختیار کی جائے۔ یہ اصطلاح آج کے جمہوری، قانونی اور آئینی تناظر سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ 2. مالیاتی اداروں اور روزگار پیدا کرنے والی کمپنیوں کو زمین خریدنے کے محدود مگر با ضابطہ حقوق دیے جائیں۔ شیڈول بینک، صنعتی کمپنیاں اور ترقیاتی ادارے—جو ریاست میں سرمایہ کاری اور روزگار لاتے ہیں —انہیں قواعد 1927/32 کے تحت مستقل باشندہ کے مساوی حیثیت دی جا سکتی ہے۔ (مجھے چند ماہ قبل UBL کے حوالے سے ایک کیس کا پتہ چلا کہ وہ مظفر آباد میں خود زمین خرید کر بنیک کی بلڈنگ بنانا چاھتا ہے لیکن سب رجسٹرار سے وزیر اعظم تک سب اتھارٹیز نے قانون کی روح کو نہیں الفاظ کو محدود معنی پہناتے ہوئے ریاست کو کروڑوں روپے کی سٹیمپ ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے محروم کیا اور بینکنگ بزنس کو نقصاں پہنچایا – جس حقیقت کا ادراک سو سال پہلے ان پڑھ اور محدود دنیا میں ادراک کر کے متعلقہ قانوں کے آرٹیکل iv میں اس کی گنجائش رکھی گء لیکن اکیسویں صدی کی AI کی دنیا میں اس سے انحراف کیا گیا -) 3. ایسے بچوں کو بھی مستقل باشندہ میں شامل کیا جائے جن کے والدین میں سے ایک ریاستی باشندہ ہو اور وہ آزاد کشمیر میں رہائش پذیر ہوں۔ اس سے ہزاروں خاندانوں کے حقوق اور شناخت کا مسئلہ حل ہوگا۔ 4 – جن لوگوں کے حق میں سیاسی جماعتوں کے نامزد امید واروں کی شہادت پر ریاستی باشندہ سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں ان کو منسوخ کر کے قانون میں درج طریقہ کار کے مطابق جائزہ لیکر جاری کئے جائیں –
نتیجہ:ریاستی باشندہ کا قانون شناخت کے تحفظ کے لیے نہایت اہم تھا، لیکن ایک صدی پرانا قانونی ڈھانچہ آج کے بدلتے ہوئے حقائق سے ہم آہنگ ہونے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
یہ مسئلہ محض قانون کا نہیں بلکہ:
• معاشی ترقی،
• کاروباری ماحول کے فروغ،
• انسانی حقوق،
• اور جدید انتظامی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے۔
اس کو کشمیر کے تنازعہ کے حل کے ساتھ مقید نہیں کیا جا سکتا – ہم ستتہر سال سے بلا نتیجہ اس کے مقید ہیں – اس صورت حال کے باوجود آگے بڑھنے کی ضرورت ہے – آزاد کشمیر کو اگر واقعی ایک مضبوط سیاسی، معاشی اور انتظامی تشخص درکار ہے تو اسے اکیسویں صدی کی سوچ کو اپنانا ہوگا—اور اس کا آغاز ریاستی باشندہ قانون کی جامع، منصفانہ اور جدید اصلاحات سے ہونا چاہیے۔ان حقائق کا ادراک کریں –
٭٭٭٭٭٭٭٭




