کالمز

،ٹی ٹی پی، نہیں، ٹی ٹی اے،،یاٹی ٹی بی!

تحریر؛امتیازعلی شاکر
دہشتگردی نہ کسی مذہب کی نمائندہ ہے اور نہ کسی ملک کی۔ جو لوگ بے گناہ انسانوں کو خودکش دھماکوں یا حملوں میں نشانہ بناتے ہیں، وہ نہ مسلمان کہلا سکتے ہیں نہ پاکستانی اورنہ ہی انسان۔ اسلام امن، بھائی چارے اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب معصوم انسانوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جس نے خود دہشتگردی کے خلاف بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے کسی دہشتگرد گروہ کے ساتھ پاکستان کا نام جوڑنا ناانصافی ہے۔دہشتگرد اپنے ذاتی مفاد اور انتقام کی خاطر مذہب اور قوم کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے عناصر کو پہچانیں، ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان سے دور رہیں۔ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دے اور اپنے اردگرد مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع کرے۔تعلیم، برداشت اور یکجہتی دہشتگردی کے خلاف سب سے موثر ہتھیار ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اختلافِ رائے کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔ معاشرے میں محبت، امن اور انصاف کے پیغام کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ دہشتگردی کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی پر سختی سے عمل کرے تاکہ کسی شرپسند کو معصوم لوگوں کے خون سے کھیلنے کا موقع نہ ملے۔اصل مسلمان اور محب وطن وہ ہے جو انسانیت کا احترام کرے، ملک سے محبت کرے اور امن قائم کرنے میں کردار ادا کرے۔ دہشتگرد انسانیت کے دشمن ہیں، ان کا کوئی مذہب، کوئی ملک اور کوئی جواز نہیں۔ ہمیں متحد ہو کر اس سوچ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہوگا تاکہ پاکستان امن و سلامتی کی علامت بن سکے۔
کسی بھی دہشتگرد گروہ کو،پاکستانی،کہنا یا پاکستان کا نام ان کے ساتھ جوڑنا نہ صرف غلط ہے بلکہ ہمارے وطن اور قوم کی توہین کے مترادف ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا کسی بھی دہشتگرد گروہ کے ساتھ پاکستان کا تعلق یا پاکستان کا نام جوڑنا ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستان کی شناخت، عوام اور فوج کی قربانیاں، اور ریاست کی سا لمیت ایسے لوگوں یا تنظیموں کے لیے نہیں جو دہشتگردی کرتے ہیں۔ جب تک کوئی گروہ خود کو دہشتگردی سے بالکل الگ اور بے گناہ ثابت نہیں کرتا، پاکستان اس کا کوئی نام یا تعلق نہیں مانے گا۔جوگروہ بھارت کی پراکسی بن کرافغان عبوری حکومت کی پشت پناہی میں پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں انہیں،،ٹی ٹی پی،،(تحریک طالبان پاکستان) نہیں بلکہ،،ٹی ٹی اے،،(تحریک طالبان افغانستان) یا،،ٹی ٹی بی،،(تحریک طالبان بھارت) لکھااوربولاجائے۔کسی بھی دہشتگرد گروہ کو پاکستانی کہنا یا پاکستان کا نام ان کے ساتھ جوڑنا ناقابلِ قبول ہے۔ یہ موقف نہ صرف عوام کے لیے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی واضح ہونا چاہیے تاکہ غلط فہمی یا پروپیگنڈہ پیدا نہ ہو۔
افغان طالبان حکومت کی جاری پالیسیوں نے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے۔ افغان نائبِ وزیرِ اعظم ملا عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان کے راستے تجارت محدود کریں اور متبادل راستے اختیار کریں۔ساتھ ہی پاکستانی ادویات اور بعض ضروری غذائی اشیاء پر ممکنہ پابندی کے اشارے بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ اقدامات عملی شکل اختیار کرتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا نقصان عام عوام، مریضوں، تاجروں اور چھوٹے کاروباریوں کو ہوگا۔ادویات اور خوراک انسانی بنیادی ضروریات ہیں،انہیں سیاسی یاجنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا غیر ذمہ دارانہ اور غیر انسانی اقدام ہے۔پاکستان کے سکیورٹی ادارے،حکومت اورعوام واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کے خطرے یا دہشتگردانہ کارروائی کا جواب فوری اور موثر طریقے سے دیں گے۔ افغان سرزمین کسی دہشتگرد گروہ یا عناصر کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو پاکستان کے لیے یہ اقدام لازم ہوگا۔دہشتگردی کے خلاف جدوجہد صرف فوجی کارروائی نہیں، بلکہ قوم کی اخلاقی، سیاسی اور دفاعی ضرورت بھی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی دہشتگرد گروہ کو پاکستانی کہنا پاکستان کی توہین ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی شناخت، قربانیوں اور وقار کی حفاظت چاہتے ہیں۔ اسی شناخت کی حفاظت کے لیے پائیدار،دانشمندانہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ پاکستانی قوم کسی بھی دھمکی یا پابندی سے خوفزدہ نہیں۔ ہم نے دہشتگردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں وہ کبھی فراموش نہیں ہوں گی۔

Related Articles

Back to top button