
آزادکشمیر کے شمالی علاقہ کے اضلاع میں 2005ء میں تباہ کن زلزلہ نے جو اثرات چھوڑ ے تھے وہاں پر کئی جگہوں پر بحالی کے تعمیراتی کام ابھی بھی تشنہ تکمیل ہیں۔لیکن شہر کی رونقیں اپنی اصل حالت میں پہلے سے زیادہ لوٹ آئی ہیں۔ خاص طور پر مظفرآباد شہر جو کہ ہمارا دارالحکومت ہے میں تو انسانوں کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ جتنی آبادکاری اِس دو دھائی میں شہر میں نظرآتی ہے شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ اِرد گرد کے مضافات اور دیہاتوں سے لوگوں نے شہر کا رُخ کر لیا ہے اور اِسے ہی اپنا مستقل مسکن بنا لیا ہے۔ یہ تو انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہتا ہے ہر کوئی اچھی سے اچھی سہولت کا متلاشی ہوتا ہے خاص طور پر اپنے بچوں کیلئے اعلیٰ اور اچھی تعلیم صحت کی بہترین سہولیات، آرام دہ رہائش صاف ستھرا ماحول اور صحت بخش اور عمدہ غذا کیلئے سبھی محنت اور لگن کے ساتھ اِس جستجو میں صبح شام ایک کرتے ہیں۔
زلزلہ کے دوران یہاں سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا تھا لوگوں کے گھر، سکول، ہسپتال، سرکاری عمارات اور دیگر املاق ملیامیٹ ہو گئی تھیں اُس وقت مایوسی اور نااُمیدی کے سائے اتنے گہرے ہو گئے تھے کہ یہ سوچنا بھی محال لگتا تھا کہ یہ شہر کبھی آباد ہو گا یا نہیں میرا گھر بھی دیگر لوگوں کی طرح اِس زلزلہ کی تباہ کاری کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ میری والدہ بھی شہید ہو گئی تھیں ہم اِن مشکل حالات میں نقل مکانی کر کے راولپنڈی میں منتقل ہو چکے تھے۔ میرے والد کو اللہ تعالیٰ نے زِندگی دی تھی چند زخموں کے بعد وہ صحت یاب ہو گئے تھے ایک روز راولپنڈی میں میرے والد سے ملنے ایک اُن کے پرانے رفیق خواجہ حمید ممتاز (سابق سیکرٹری حکومت) اور اُن کی بیگم صاحبہ (دونوں اِس جہاں سے رخصت ہو گئے ہیں، خدا اُنہیں غریق رحمت فرمائے) ہماری عارضی رہائش گاہ میں تشریف لائے میں نے اُن سے یاس اور نا اُمیدی میں ڈوبے یہ پوچھا کہ ”انکل! کیا ہمارا شہر اب پھر کبھی آباد ہو گا یا نہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ”بیٹا ہمارے ہاں صرف ہڑپہ اور موہنجوڈارو کی تہذیبیں آباد نہ ہوئی تھیں باقی دُنیا میں سب کچھ پھر سے آباد و بحال ہو جاتا ہے یاد رکھنا ایک دِن مظفرآباد شہر بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایک پُررونق شہر کے طور پر آباد ہو گا“۔ آج میں شہر کی آبادی اور اُس کے ماحول کو دیکھتا ہوں تو اُن بزرگوں کے علم، تجربے اور دُوراندیشی کا معترف ہو جاتا ہوں۔
ہمیں آج اپنے شہر کی گلیوں، محلوں، سڑکوں اور چوراہوں پر گزرنے کا موقع ملتا ہے تو یہاں خوشی اور شادمانی کا احساس ہوتا ہے کہ اِس شہر کو اللہ تعالیٰ نے پھر سے زِندگی بخش دی ہے ہر سُو خوشحالی کی مہک پھوٹتی نظرآتی ہے زِندگی کا پہیہ تیزی سے رواں دواں ہو گیا ہے شہر کی آبادی میں روزبروز اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے تعمیراتی کام کیا ایک لامتناہی سلسلہ شہر کے چاروں اطراف جاری ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں، کاروباری مراکز جن میں کثیر تعداد میں بلند و بالا پلازوں کی ہے کی تعمیر میں دِن رات کوشاں نظرآتے ہیں مگر وہاں افسوس بھی ہے کہ کوئی بھی تعمیر بمطابق وضع کردہ تعمیراتی اُصول و ضوابط کے تحت سرانجام نہیں دی جا رہی بس ایک دوڑ ہے جو جاری ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے کوشش میں نظرآتا ہے مگر قواعد و ضوابط ندارد، کوئی Building Codesپر کاربند نہیں۔ اِن سب باتوں کے باوجود جو سب سے اہم بات جو ہمیں ذہن نشین کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے شہر کا صاف ستھرا ماحول اور صحت و صفائی کے بنیادی اُصول قائم کرنے اور ماحولیاتی آلودگی کو دُور کرنے کیلئے عمل پیرا ہونا ہے ہمیں اِس میں غفلت اور لاپرواہی کے احساس کو ختم کرنا چاہیے۔ ہم اپنے گھروں کے آنگن کو خوشنما بنائے ضرور رکھتے ہیں مگر بحیثیت شہری اپنے شہر کی صفائی ستھرائی میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لیتے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جو ہمارے مظفرآباد کے ہر شہری کیلئے ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمارے ارباب اختیار بھی اِس میں برابر کے شریک ہیں جن کیلئے شہر کے ضروری منصوبہ جات عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ہم اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو کہیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہیں، کہیں گٹر اُبلتے نظرآتے ہیں، کہیں بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے ہر طرف ماحول میں آلودگی نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، ہم سب کو اِس بات کا بغور جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے شہر کے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھے ہوئے ہیں۔ ہم کیوں اِس مہذب اور تہذیب دور میں بھی اپنے شہر کو یہ ماحول میسر کرتے ہیں اور اِسی میں رہنا پسند کر رہے ہیں۔ دُنیا کے بے شمار شہر ایسے ہیں جہاں وسائل کم سے کم میسر ہوتے ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے تئیں کوششوں کے تحت شہروں کو دیدہ زیب بنا کر رکھا ہوتا ہے وہاں پر ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ضرور رہتا ہے۔ ہماری حکومتیں اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہمارے شہر کی تزئین و آرائش پر اگر کچھ صرف کریں گی تو ہم چند دنوں یا ہفتوں میں ہی اُس جگہ کے ماحول کا تیاپانچہ کر دیتے ہیں۔ شہر میں بڑی بڑی شاہراؤں کے اِرد گرد پھولوں اور گملوں کو سجایا جاتا ہے تو ہم اُن کی دیکھ بھال اور صفائی کے بجائے اُنہیں تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ صاف ستھرا ماحول کی آبیاری کی طرف ہماری توجہ کم ہی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک شاید Civic Sense ابھی تک پنپ نہیں سکی باوجود اِس کے کہ ہمارے ہاں شرح خواندگی ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرکار ی عمارتوں یا شاہراؤں پر حکومتی کارندے اِکا دُکا کام کرتے تو ضرور نظرآتے ہیں مگر وہ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے یہ تمام امور با اَمر مجبوری سرانجام دیتے ہیں۔ ہم اپنے مظفرآباد ڈویژن کے تمام انتخابی حلقوں کے منتخب قابل احترام عوامی نمائندگان سے دست بستہ درخواست کرتے ہیں کہ بھلے آپ کے حلقے دُور دراز علاقوں میں ہیں اور آپ نے اپنی انتخابی مہم میں اُنہی حلقوں میں جانا ہوتا ہے اور اُنہیں جگہوں پر تعمیر و ترقی پر توجہ مرکوز کرنا ہوتی ہے وہاں کے لوگوں کے ہی مسائل آپ ترجیحاً حل کرتے ہیں مگر ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ سبھی کی رہائش گاہیں اِسی شہر مظفرآباد میں موجود ہیں اور آپ سب لوگ زیادہ وقت اِسی شہر میں اپنے لوگوں کے مسائل حل کرتے نظرآتے ہیں، آپ کے اپنے روزگاریا کاروبار کے سلسلہ میں زیادہ تر قیام مظفرآباد میں ہی ہوتا ہے۔ آپ کی زِندگی کا اوڑھنا بچھونا اِسی شہر سے وابستہ ہے لیکن کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے؟
٭ کہ مظفرآباد میں بہتا دریائے نیلم سکڑ کر کس حد تک پہنچ چکا ہے؟ آنے والے وقتوں میں شہر میں پانی کی ضروریات کیسے پورا ہونگی؟ کیا اِس کیلئے کوئی حکمت عملی وضع کی گئی ہے؟ اور اُس پر عملدآمد کب اور کیسے ہو گا؟
٭ شہر کے ہسپتالوں کی کیا حالت ہے؟ مریض ادویات کے حصول کیلئے تڑپتے نظرآتے ہیں۔
٭ شہر کی بڑی سڑکوں اور شاہراؤں پر جگہ جگہ گڑھے اور گٹر اُبلتے نظرآتے ہیں۔
٭ شہر میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار گوشت عوام الناس کو میسر نہیں۔ یہ دارالحکومت ہوتے ہوئے بھی یہاں پر کوئی ذبح خانہ موجود نہیں ہے۔
٭ شہر میں نوجوانوں کو صرف ایک کھیل کا میدان میسر ہے۔
٭ یہاں پر بے ہنگم ٹریفک کو رواں رکھنے کیلئے کوئی متبادل انتظام نہیں ہے۔
٭ شہر میں تدفین کیلئے قبرستان کم پڑ گئے ہیں اور اِس کا ابھی تک کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا جا سکا۔
آپ سب معزز اراکین سے استدعا ہے کہ آپ مل کر حکومت وقت جو کہ اپنے نئے عزم اور جوش و جذبہ کے ساتھ حال ہی میں قائم ہوئی ہے کو مظفرآباد شہر کے بے شمار مسائل (چیدہ چیدہ کا ذِکر آ چکا ہے سب کا احاطہ کرنا یہاں مشکل ہے) کی جانب توجہ دلوائیں اور اِنہیں حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں ہمارے نئے جواں سال محترم وزیراعظم کو بھی یہ بات بھی ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ اِن کے بزرگوں کے ساتھ اِس شہر نے بڑی وفا کر رکھی ہے۔
ہمارا شہر آباد تو ہو گیا ہے اِس کی رونقیں بھی اب عروج پر ہیں مگر ہمیں اِس کے مسائل سے روگردانی نہیں کرنا ہو گی اِس کیلئے اپنا وقت ضرور وقف کریں یہاں کے شہریوں کی زِندگی کو آسان بنائیں کیونکہ ”یہ شہر تمہارا اپنا ہے“۔
٭٭٭٭٭




