کالمزمظفرآباد

انوار حکومت کا سیاسی زوال، ایک تجزیاتی مقدمہ(حصہ سوم)

تحریر: چوہدری طارق فاروق

انوار حکومت کی ذہنی ساخت، سیاست نہیں، نفسیاتی کھیل ہر سیاسی طرزِ حکمرانی کے پیچھے ایک ذہنی ڈھانچہ ہوتا ہے، کسی کی سیاست میں رواداری ہوتی ہے، کسی کی سیاست میں اصول، کسی کی میں نظریہ لیکن انوار الحق کے دور میں سیاست اصل میں نفسیاتی عدم تحفظ، انتقام اور ذاتی عظمت کے وہم کے گرد گھومتی رہی،یہ وہ ذہنیت تھی جواختلاف سے خوف کھاتی ہے،سوال سے بھاگتی ہے اور تنقید کو ذاتی دشمنی سمجھتی ہے، انوارالحق کا ذہنی فریم ورک تین ستونوں پر کھڑا تھا، خود ساختہ مظلومیت،ہر ناکامی کو“سازش”کہنا،ہر تنقید کو“حملہ”کہنااور ہر سیاسی چیلنج کو“ریاست کے خلاف منصوبہ”قرار دینا،یہ اس کے ذہنی اضطراب کا بنیادی حصّہ تھا۔
ذاتی عظمت کا وہم
انوارالحق کی تقریریں، انٹرویوز اور سیاسی بیانات ایک ایسے شخص کی آواز لگتے تھے جو اپنے آپ کو خطے کی تاریخ کا واحد صادق و امین سمجھتا ہو،یہی وہ وہم تھا جو اسے حقیقت سے مسلسل دور رکھتا رہا۔ فریب کاری کو سیاسی حکمت سمجھنایہ سب سے خطرناک پہلو تھا،انوار الحق کے نزدیک جھوٹ سیاسی ضرورت نہیں،بلکہ اقتدار کا“مستقل ہتھیار”تھا۔ہر روز ایک نیا بیانیہ،ہر ہفتے ایک نیا الزام،ہر بحران کو“اپنا کارنامہ”بنا کر پیش کرنایہی ان کی سیاست کا مرکز تھا۔
بیانیے کی سیاست، جھوٹ کی فیکٹری
انوار الحق حکومت نے جھوٹ کو صرف استعمال نہیں کیا بلکہ ادارہ جاتی سطح پر فروغ بھی دیا،یہاں بیانیہ سچ سے نہیں،ضرورت سے بنتا تھا۔“ہم نے ریاست کو بچایا ہے“۔یہ ان کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا جملہ تھاحالانکہ تین سال تک ریاستی ادارے جس طرح ٹوٹے،وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ“نجات دہندہ”نہیں بلکہ زوال کا سب سے بڑا سبب تھا۔”ماضی میں سب کرپٹ تھے، اب انصاف ہوگا“اگر واقعی انصاف کرنا ہوتا توپبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنتی،احتساب بیورو آزاد ہوتا،الیکشن کمیشن مکمل ہوتا،ججز کی تقرریاں ملتوی نہ ہوتیں،مگر انصاف زبانی دعوے تک محدود رہا،اور ظلم ”عمل“میں جاری رہا۔دعویٰ یہ رہا کہ ہم نے اعزاز کے ساتھ ریاست کی خدمت کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ فائلیں سال بھر دبی رہیں،پانچ ہزار آسامیاں خالی پڑیں،بیوروکریسی خوف زدہ رہی،عدالتیں نیم مردہ ہو گئیں محکمے سیاسی دباؤکا شکار رہے،کیا یہی خدمت ہے؟”ہم پر عالمی طاقتیں حملہ آور ہیں“یہ بیانیہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد چلایا گیاتاکہ سیاسی شکست کو“قومی حملے”کا رنگ دیا جا سکے،پرفارمنس صفرلیکن ڈرامہ پورا۔
عوامی خیال سازی، سوشل میڈیا کا استحصال
انوار الحق حکومت نے پہلی بار آزاد کشمیر کی سیاست میں سوشل میڈیا کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا،فیک بیانیے،ہزاروں ٹوئٹر اکاؤنٹس، درجنوں جعلی پیجزاور سینکڑوں پلانٹڈ پوسٹوں کے ذریعے انوار حکومت نے عوامی ذہن کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی،ہر دن ایک نیا فریب،ہر رات ایک نئی افواہ کا سلسلہ جاری رہا۔
مصنوعی کامیابیاں
چھوٹے سے کام کو“تاریخی”بنا کر پیش کرنااور معمولی انتظامی قدم کو“انقلاب”کہنااس حکومت کی ترجیح تھی۔سوشل میڈیا پر گالی کی سیاست، اختلاف رکھنے والوں کوبدترین زبان، ذاتی حملوں اور کردار کشی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ صرف اخلاقی زوال نہیں تھا،یہ ریاستی حمایت یافتہ خوف کی پالیسی تھی۔
بیوروکریسی پر خوف، گورننس کا قتل
بیوروکریسی کسی بھی ریاست کی انتظامی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے لیکن انوار حکومت نے اسے تین سال تک خوف، دھمکیوں اور ذاتی انتقام کے تحت چلایا۔ افسران کو بدل بدل کر لگاناکوئی پالیسی نہیں،کوئی سسٹم نہیں،صرف ”یہ میرے ساتھ ہے یا نہیں؟“۔فائلوں پر کارروائی کیلئے غیر معمولی تاخیر،سینکڑوں منصوبے روک دیے گئے،صرف اس لیے کہ دستخط ایک شخص کی میز پر پڑے تھے، ذاتی پسند ناپسند پر تقرریاں، اہلیت نہیں،وفاداری معیار تھا،یہ ریاستی بربادی کی بدترین شکل ہے۔
سیاسی انتقام، ایک مستقل مشغلہ
انوار حکومت نے مخالفین کے خلاف ایک ادارہ جاتی جنگ لڑی، سیاسی مخالفین کو غدار قرار دیاجو بھی کھل کر سوال کرتا،اسے فوراً”دشمن ایجنڈے کا حصہ“کہا جاتا۔فارن فنڈنگ، مافیا، کرپشن ہر طرح کے الزامات مگر ثبوت موجود نہیں،یہ الزامات عوام کو بہلانے کیلئے تھے،عدالت میں پیش کرنے کیلئے نہیں،بیوروکریسی کو استعمال کر کے انتقامی فائلیں کھولوانا،یہ روش صرف کمزور قیادت اپناتی ہے اور انوار الحق اس کمزوری کی اعلیٰ مثال تھے۔ عوامی ردعمل، خاموشی مگر نہ چاہتے ہوئے عوام نے اس دور کے آخر میں بتدریج ایک حقیقت کو سمجھ لیا،یہ حکومت کام نہیں کرتی، صرف ڈرامہ کرتی ہے۔ عوام کے اندر تین جذبات پیدا ہوئے، مایوسی،ریاستی ادارے تباہ،تعلیم و صحت برباد،کوئی سمت نہیں۔ بے زاری، ہر روز نئی الزام تراشی،نیا جھوٹ،نیا گھسا پٹہ بیانیہ ناراضگی، عدم اعتماد کی کامیابی اسی جذباتی تبدیلی کا نتیجہ تھا،انوار حکومت عوام کا نہیں،صرف اپنے حلقہ احباب اور اپنی ”ڈیجیٹل ٹیم“کے سہارا لے کر چل رہی تھی اور یہ سہارا آخرکار ناکافی ثابت ہوا۔

Related Articles

Back to top button