پونچھ،شناخت سیاست اور مزاحمت

پونچھ ایک نیم خود مختار ریاست اور اس کے بعد ریاست جموں وکشمیر کے حصے کے طور پر ایک مردم خیز خطہ رہا ہے۔تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کو بلکہ خطہئ پونچھ کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔نقل مکانی کے جو دکھ بر صغیر کے دوسرے علاقوں کو جھیلنا پڑے وہی زخم خطہئ پونچھ کو بھی سہنا پڑے۔غیر مسلم آبادی نے بھارت کی جانب نقل مکانی کی تو پونچھ کے علاقوں سے مسلمان آبادی نے پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کا رخ کیا۔پونچھ کا مرکز پونچھ شہر تھا۔اس سرزمین نے برصغیر کی سطح کے صحافی اُستاد قانون دان پیدا کئے۔پونچھ کی تاریخ وثقافت اور سیاست پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔اس کام اور مواد میں ایک اضافہ آزادکشمیر کے معروف کالم نگار دانشور اور مصنف ارشاد محمود کی کتاب POONCH,IDENTITY,POLITICS AND RESISTANCE کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب ہے۔ارشاد محمود صاحب ہمارے ہمدمِ دیرینہ ہیں۔تنازعہ کشمیر اور اس کی مختلف جہتیں ان کی تحریر وں تصانیف کا بنیادی موضوع رہا ہے۔سی پی ڈی آر کے نام سے ایک تنظیم کے ذریعے بھی خطے میں امن اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کام کرتے رہے اور اب کچھ عرصہ سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔کینیڈا میں بھی اپنی بہت سی مصروفیات کے ساتھ ساتھ کشمیر کاز کے ساتھ وابستہ ہیں جس کا ثبوت ان کی کتاب ہے۔ارشاد محمو د اس موضوع پر قلم اُٹھانے والے اپنے پیش رو محققین کی طرح پونچھ کی وجہ تسمیہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکے اور ان کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ سنسکرت سے قریب تر ہے جس کا مطلب ریاست سے باہر کا علاقہ یا حصہ ہو سکتا ہے۔پونچھ کی ریاست کے خودمختار ادوار کے بعد وہ جدید پونچھ کی اصطلاح اس دور کے لئے استعمال کرتے ہیں جب ڈوگرہ حکمرانوں نے اسے اپنے اقتدار کاحصہ بنایا اور اس پورے عرصے میں کشمیر دربار کے ساتھ پونچھ کے لوگوں کی ایک کشمکش سی چلتی رہی۔بعد میں خود پونچھ کے اقتدار کے مقامی ایوانوں میں طاقت کا کھیل شروع ہوا جس سے پونچھ کی نیم خودمختار حیثیت کا دائرہ مزید تنگ ہوگیا۔پہلی اور دوسرے جنگ عظیم نے پونچھ کے حالات کواس لحاظ سے متاثر کیا کہ یہاں کے لوگ برطانوی فوج کا حصہ بن کر اپنا عسکری کردار ادا کرتے رہے۔ظاہر ہے کہ اس نے پونچھ کی سماجی سیاسی اور معاشی حرکیات کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔مہاراجہ ہری سنگھ کے اقتدار کے آخری دنوں میں پونچھ کی مسلم قیادت کے رجحانات برصغیر کی مقبول لہر تحریک پاکستان کی طرف رہے اور اس خطے کے عمائدین تحریک پاکستان کی سرگرمیوں میں وفود کے طور پر شرکت کرکے اپنا حصہ ڈالتے رہے۔تقسیم کے وقت مہاراجہ کے اقتدار کو حقیقی چیلنج پونچھ کے علاقوں سے درپیش تھا۔اس ہنگامہ خیز صورت حال میں جو دو نام سردار محمد ابراہیم خان اور سردار عبدالقیوم خان اُبھرے ان کا تعلق پونچھ سے تھا۔سردار ابراہیم خان آزادکشمیر کی باغی حکومت کے پہلے صدر قرار پائے جبکہ سردار عبدالقیوم خان اس جلسے کا نوجوان اور اہم کردار تھا جو ڈوگرہ حکومت کے خلاف نیلابٹ کے مقام پر ہوا تھا۔جنگ شروع ہونے کے بعد آزادکشمیر کی مقامی فورسز نے دوسال تک پونچھ شہر کا محاصرہ کئے رکھا۔یہ محاصر ہ کیوں ختم ہوا اور حریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے قدم کیوں رک گئے بین السطور اس تحقیق میں بیان کیا گیا ہے۔پونچھ کا کردار اس قدر اہم تھا کہ آزادکشمیر کی باغی اور انقلابی حکومت کا پہلا دارالحکومت بھی پونچھ کے علاقے جنجال ہل میں ایک خیمے میں قائم کیا گیا اور اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لئے جو ریڈیو سٹیشن قائم کیا گیا اس کا نام بھی آزادکشمیر ریڈیو تراڑ کھل تھا۔بعد میں یہ ریڈیو سٹیشن راولپنڈی پشاور روڈ پر منتقل ہوا مگر آج تک یہ آزادکشمیر ریڈیو تراڑکھل ہی کہلاتا ہے۔حال ہی میں آزادکشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی کتاب آئینہ کشمیر منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ انکشاف کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں شیخ محمد عبداللہ سے پوچھا کہ یہ اچھا نہ ہوتا کہ ریاست کو متحد رہنے دیا جاتا اور موجودہ تقسیم کو روکا جاتا تو ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جو علاقہ لینا تھا وہ لے لیا تھا آگے قبائلی طرز کا علاقہ تھا وہاں ہم نے فورسز کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔شیخ عبداللہ کا یہ دعویٰ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پیرپنجال کے دوسری سمت پونچھ کا علاقہ مزاحمت اور بغاوت کی پہچان رکھتا تھا یوں اسے ان گورن ایبل سمجھا جا رہا تھا۔یہ بات کسی حدتک درست تھی کہ پونچھ کا مزاحمانہ کردار اور مزاج پاکستان کے ساتھ مل کر بھی اپنا رنگ دکھاتا رہا،سردار ابراہیم خان کی برطرفی کے بعد اس علاقے نے مسلح مزاحمت کرکے پاکستان کی فورسز کو ٹف ٹائم دیا تھا۔یہ مزاحمت اس قدر زور دار تھی کہ حکومت پاکستان کو ایک کھلے میدان میں عوام کے جم غفیر میں اس مزاحمت کے قائد سردار ابراہیم خان کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا تھا۔حکومت پاکستان کی نمائندگی وزیر امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کر رہے تھے۔حالیہ ایکشن کمیٹی کی تحریک میں بھی جو بات پالیسی سازوں کو خوف زدہ کئے ہوئے تھی وہ پونچھ کا مزاحمانہ اور باغیانہ مائنڈ سیٹ اورردعمل کا خوف تھا۔یوں بھی اس تحریک میں پونچھ کی قیادت کا لب ولہجہ واضح غیر مبہم اور بے لاگ تھا جس نے اسلام آباد کے منصوبہ سازوں کو ایکشن کمیٹی کے ساتھ وہ کچھ کرنے سے روکے رکھا جو وہ اپنے شہریوں سے حالیہ عرصے میں کر گزرتے رہے ہیں۔پونچھ کی سیاست مزاحمت اور شناخت سمیت اس کے ہر پہلو کو سمجھنے کے لئے ارشاد محمود صاحب کی کتاب اس مواد میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔



