مقامی کرنسیوں میں تجارت کی ضرورت و اہمیت

دنیا میں بیرونی تجارتی لین دین کےلیے امریکی ڈالر کا استعمال کیا جاتا ہے، جو ترقی پذیر ممالک کےلیے کئی طرح کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ ملکی کرنسی چاہے جتنی بھی ہو، ان ممالک کو درآمدات کےلیے ڈالر کا ایک بڑا ذخیرہ رکھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ذخیرہ کم ہوجائے تو بیرونی ادائیگیوں میں نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر ڈالر ملک میں بالکل مفقود ہوجائے تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے، جیسے سری لنکا کے پاس تیل خریدنے کےلیے جب ڈالر باقی نہ رہے تو وہ دیوالیہ قرار دیا گیا جس کے بعد اس کے حالات نہایت خراب ہوگئے کیونکہ ملک میں پٹرول خریدنے کےلیے ڈالر نہیں تھے۔ اس طرح ملک میں پٹرول ختم ہوگیا، جس کی وجہ سے تمام مشینری رک گئی۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند ہوگئیں، پبلک و پرائیویٹ ٹرانسپورٹ رک گئی، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے دفاتر کا کام بھی نہایت متاثر ہونے لگا۔ سیاحت تباہ ہوگئی، تعلیمی نظام تھم گیا اور امتحانات ملتوی ہوگئے۔ صنعتوں کی بندش سے عوام بڑی تعداد میں بے روزگار ہوگئے، بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال دیے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ملکی بینکوں میں ڈالر کا ذخیرہ ختم ہوگیا تھا۔پوری دنیا کی تجارت زیادہ تر امریکی ڈالرز پر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مقامی کرنسیوں کو نقصان ہوتا ہے۔ اگر اس کے بجائے یہ تجارت مقامی کرنسیوں میں کی جائے تو اس کا فائدہ براہ راست ترقی پذیر ممالک کو ہوگا اور مقامی کرنسی کے استعمال کی وجہ سے یہ ممالک دیوالیہ پن کے خطرات سے بھی دوچار نہیں ہوں گے۔ ان کی تجارت بڑھے گی، انہیں ڈالر جمع کرنے کی فکر لاحق نہیں رہے گی۔ اب دنیا کے کئی ممالک اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مقامی کرنسیوں میں تجارت کی کوشش کررہے ہیں۔
حالیہ دنوں پاکستان نے بھی روس سے تیل کی خریداری میں امریکی ڈالر کے بجائے چینی یوآن کا استعمال کیا ہے۔ اسی طرح روس نے بھی گزشتہ برس یوکرین پر حملے کے بعد یورپ و امریکا کی طرف سے پابندیوں کے بعد چینی یوآن میں کرنسی کو ترجیح دی۔