
دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ریاستیں اپنی عدلیہ کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور آزاد صحافت کے وجود سے مضبوط ہوتی ہیں۔ عدلیہ کسی بھی معاشرے کا ایسا ستون ہے جو نہ صرف انصاف فراہم کرتا ہے بلکہ ریاست کو وہ اخلاقی جواز بھی دیتا ہے جو قوموں کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی سپریم کورٹ کی گولڈن جوبلی ایسی ہی ایک تاریخی یادگار رہے گی جس نے نصف صدی کے سفر کو نہ صرف فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا بلکہ اس سفر کو نئی توانائی، نئے احساس اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھانے کی دعوت بھی دی۔27 نومبر 2025 کو سپریم کورٹ ہیڈ کوارٹر مظفرآباد کے کمیٹی روم میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تقریب میں چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر جناب جسٹس راجہ سعید اکرم خان سینئر جج جناب جسٹس رضا علی خان نے شرکت فرمائی اور رونق بخشی، سٹیج سیکرٹری کے فرائض سٹاف آفیسر تیمور ممتاز میر نے انجام دئیے اس موقع پر گولڈن جوبلی تقریبات کے دوران نمایاں کوریج کرنے والے صحافیوں کی خدمات اور کارکردگی کے اعتراف انہیں تعریفی شیلڈز سے نوازا گیا، یہ موقع اس لحاظ سے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ اس روز آزاد جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ نے پہلی مرتبہ اتنے بڑے فورم پر صحافیوں، میڈیا کارکنوں اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے افیسران اسٹاف پاکستان ٹیلی وژن کے آفیسران کی خدمات کو سرکاری سطح پر سراہا۔ اس اعتراف میں جہاں اخلاقی عظمت کارفرما ہے وہیں اس کا ایک علامتی پہلو بھی ہے کہ یہ ریاست صرف فیصلے نہیں سناتی بلکہ ان افراد کو عزت بھی دیتی ہے جو ریاست کے بیانیے کو دنیا تک پہنچاتے اور انصاف کے ایوانوں کے کام کو اجاگر کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں ہونے والی پروقار تقریب میں چیف جسٹس جسٹس راجہ سعید اکرم خان اور سینئر جج جسٹس رضا علی خان نے جن صحافیوں اور افسران اور کیمرہ مینوں (فوٹو گرافرز کو تعریفی شیلڈز پیش کیں وہ محض اعزازات کی تقسیم نہیں بلکہ ایک وسیع تر اعتراف تھا—اس بات کا اعتراف کہ میڈیا اور عدلیہ ترقی یافتہ معاشروں کی طرح یہاں بھی ایک دوسرے کے تکمیلی ادارے ہیں۔چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان کے خطاب نے تقریب کو فکری اور تاریخی عظمت دے دی۔ یہ وہ کلمات تھے جو عدلیہ کے وژن، ریاست کے تشخص اور تحریکِ آزادی کشمیر کے جذباتی پس منظر کو ایک ساتھ جوڑ رہے تھے۔ اُن کا یہ جملہ کہ”آزاد کشمیر کے عوام کے فیصلے ان کی اپنی سپریم کورٹ میں ہوتے ہیں جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے فیصلے دہلی میں انڈین سپریم کورٹ میں ہوتے ہیں ”
یہ صرف ایک حقیقت کا اظہار نہیں تھا بلکہ یہ آزادی اور غلامی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنے کے مترادف تھا سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر نے اپنی گولڈن جوبلی کے ذریعے نہ صرف اپنے 50 سالہ آئینی و عدالتی سفر کو اجاگر کیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ ایک باوقار ریاست اپنی عدلیہ کو کتنا مقدس اور بااختیار سمجھتی ہے۔آزاد کشمیر کی عدلیہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ یہاں کے فیصلے صرف کاغذی نہیں بلکہ خطے کے سیاسی، سماجی اور قومی مستقبل پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان سمیت چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے معزز ججوں کی جوڈیشل کانفرنس میں شرکت بذاتِ خود ایک اعتراف ہے کہ آزاد کشمیر کی عدلیہ صرف علاقائی نہیں، قومی سطح پر بھی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ان کی موجودگی نے ایک طاقتور پیغام لائن آف کنٹرول کے اس پار بھی بھیجا کہ انصاف کی یہ آواز سرحدوں کی قید میں نہیں رہتی۔ کشمیر کے ایک حصے میں آزادی کی روشنی ہے، تو دوسرے حصے میں جبر کی تاریکی اور یہ تقابل خود ایک بیانیہ ہے۔جوڈیشل اسٹاف اور افسران ایک خاموش مگر عظیم قافلے کا حصہ ہوتے ہیں اکثر تاریخ کے بڑے کام اُن لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں جنہیں کیمروں کی روشنی نہیں چھوتی۔ عدالتوں کے اندر بیٹھے رجسٹرارز، اسسٹنٹ رجسٹرارز، پروٹوکول آفیسرز، انتظامی افسران، کورٹ اسٹاف اور درجنوں غیر نمایاں کردار وہ بنیاد ہیں جن پر انصاف کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
اس تقریب میں چیف جسٹس نے احسن امتیاز اور رانا خالد جیسے افسران کو تعریفی شیلڈز دے کر یہ ثابت کیا کہ ادارے صرف فیصلوں سے نہیں بلکہ اُن لوگوں کی محنت سے مضبوط ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔یہ عمل ایک نئے کلچر کی بنیاد ہے—اعتراف کا کلچر، شکریے کا کلچر، اور خدمات کے احترام کا کلچر ہے اس تقریب کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ پہلی مرتبہ عدلیہ نے منظم اور سرکاری سطح پر صحافیوں کی خدمات کو سراہا۔ میڈیا کی جدوجہد اکثر کڑی تنقید، بے شمار خطرات اور شدید دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ مگر جب عدلیہ جیسا مقتدر ادارہ میڈیا کے کردار کو سراہتا ہے تو یہ آزادیِ اظہار اور ادارہ جاتی تکریم کا ایک روشن مثال بن جاتی ہے۔اس تقریب میں جن صحافیوں کو اعزازات ملے، اُن میں سردار ذوالفقار علی (وائس چیرمین پریس فاؤنڈیشن آزاد جموں و کشمیر) سجاد قیوم میر(صدر مرکزی ایوان صحافت)محمد عارف عرفی (جیو نیوز)اسلم میر(دنیا نیوز)سردار رضا(اے آر وائے نیوز) سید آفاق حسین شاہ(ایڈیٹر محاسب / سابق صدر مرکزی ایوان صحافت مظفرآباد) غضنفر عبداللہ(جی ایم اے جے کے ٹی وی) راجہ عدیل خان(پی ٹی وی) راجہ سہیل خان، راجہ عبد الباسط (آفیسران محکمہ اطلاعات) صدام شاہ، ملک شبیر، راشد احمد، زاہد خٹک(ہی آئی ڈی)
ظہیر احمد جگوال(خبرنامہ) راقم الحروف محمد شبیر اعوان (اوصاف / کالم نگار) آزاد کشمیر ہائی کورٹ اسٹیبلشمنٹ کے دو آفیسران خواجہ احسن امتیاز اسسٹنٹ رجسٹرار پروٹوکول ہائی کورٹ اور رانا خالد اسٹنٹ رجسٹرار انتظامیہ ہائی کورٹ شامل تھے یہ تمام نام نہ صرف اداروں بلکہ عوام اور عدلیہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔یہ شیلڈز ہر اس صحافی کا اعزاز ہیں جو انصاف اور آزادی کے سفر میں سچائی کا چراغ جلائے رکھے ہوئے ہے۔گولڈن جوبلی تقریبات محض عدلیہ کی تاریخ نہیں بلکہ تحریکِ آزادی کشمیر کے تناظر میں بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ کشمیر کی آزادی کا خواب تبھی روشن رہتا ہے جب کشمیر میں انصاف کا بول بالا ہو، جب ادارے مضبوط ہوں، جب عدلیہ عوام کی آواز بنے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے یہ تقریبات ایک پیغام تھیں کہ کشمیر کا وہ حصہ جو آزاد ہے، وہ صرف سیاسی طور پر نہیں بلکہ ادارہ جاتی طور پر بھی مضبوط، باوقار اور خودمختار ہے۔
یہ پیغام خود آزادی کی تحریک کو نئی روشنی دیتا ہے کہ حصولِ آزادی کے بعد کس طرح کا نظام قائم ہو سکتا ہے، کس طرح کا عدالتی ڈھانچہ عوام کو تحفظ دے سکتا ہے اور کس طرح ریاستیں عدل اور شفافیت کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں۔چیف جسٹس جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے بجا طور پر کہا کہ“پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے”—یہ جملہ آزاد کشمیر کے ہر شہری کے دل کی آواز ہے۔ پاکستان صرف سیاسی پناہ نہیں بلکہ نظریاتی، ایمانی اور تاریخی رشتہ ہے۔ اور جب سپریم کورٹ آزاد کشمیر میں پاکستان کے اعلیٰ ججوں کی آمد ہوتی ہے، تو یہ رشتہ اور مضبوط، اور نمایاں ہو جاتا ہے۔عدلیہ کے یہ روابط پاکستان اور آزاد کشمیر کے ادارہ جاتی تعلقات کو ایک نئی بلندی دیتے ہیں۔پچاس سال میں پہلی بار جس شاندار انداز میں میڈیا، جوڈیشل افسران اور اسٹاف کی خدمات کو اعزازات سے نوازا گیا ہے وہ ایک ایسی روایت کی بنیاد ہے جو آنے والے برسوں میں اداروں کو مزید مضبوط کرے گی۔ جب ادارے اپنے لوگوں کی خدمات کو سراہنے لگ جائیں تو یہ خود ادارے کی مضبوطی اور بالغ نظری کی دلیل ہے۔یہ تقریب آزاد کشمیر کے عدالتی نظام کی وہ تصویر ہے جس میں ادارہ جاتی احترام، پیشہ ورانہ وقار، سماجی ہم آہنگی اور آزادی کا احساس یکجا ہو جاتا ہے۔گولڈن جوبلی صرف ایک تقریب نہیں تھی—یہ تاریخ کا وہ سنگ میل ہے جہاں عدلیہ، میڈیا، جوڈیشل افسران، عوام اور ریاست ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیے۔ یہ تقریب عدالت کی گھنٹی سے لے کر کیمرے کی فلیش تک ایک اجتماعی اعترافِ خدمت تھا۔یہ لمحہ اس لیے بھی یادگار رہے گا کہ اس نے آزاد کشمیر کی عدلیہ کو نہ صرف خطے بلکہ پورے ملک میں ایک شاندار ادارہ کے طور پر متعارف کرایا۔50 سالہ اس سفر کے بعد آج سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر صرف ایک عدالت نہیں بلکہ انصاف، وقار، آزادی، اعتماد اور قومی وحدت کی علامت بن چکی ہے۔اور یہ وہ پیغام ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے امید کا چراغ ہے—
کہ انصاف زندہ ہے،
ادارے مضبوط ہیں،
اور کشمیر کا مستقبل روشن ہے۔




