
پاکستان اور بھارت کی دشمنی بنیادی طور پر کوئی دشمنی نہیں ہے، یہ دراصل شریک وارہ تھا، ہے،جو دشمنی سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے،یوں تو دونوں میں ظاہری ٹکراؤ جموں کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن حقیقت میری نظر میں بہت گہری ہے،ہم نے پاک بھارت مسائل کو ہمیشہ تاریخ کے تنا ظر میں دیکھا ہے،آئیں آج پاک بھارت کو ایشو کو حقیقت اور جغرافیے کے تناظر میں دیکھتے ہیں، میرا ماننا ہے کہ اگر یہ جمو کشمیر کامسئلہ پرامن حل ہو بھی جائے تب بھی دونوں ملکوں کا بیر پن اور اختلاف ختم نہیں ہو سکتا، لیکن گلوبل گاؤں کے چوہدری اور سرپنچ ا ٓج بھی انہیں پکڑ کرمل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا کہتے ہیں مگر بھارت کی نس نس میں وہ نفرت و عداوت بھری ہے کہ بھا رتی حکمرانوں کے مرنے کے بعد بھی نہ جائے گی اور ان کا مردہ جلنے کے بعد بھی دہائیوں تک دھواں اٹھتا رہے گا، حالانکہ مشترکہ ترکہ تقسیم ہوتے وقت بھی قابض برطانیہ کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ( ولایت لالہ،منہ کا گورا من کا کالا) نے ڈنڈی کے بجائے ڈنڈا دے مارا تھا،وہ بھی بے چارے پاکستان کے سر پر،اور سمجھیں کہ دو قومی نظریے کو خفیہ طور پر صلیبی دشمنی اور عداوت کی بنا پر مٹانے کی پہلی اینٹ پاکستان کے دل میں اور بھارت کے دماغ میں گاڑ دی تھی، یہی وجہ ہے کہ بھارت کا دماغ روز اول سے ہی چل گیا تھا،اور پاکستان کا بھی دل بھارت کے کرتوتوں کے باعث صاف نہیں ہو پایا،(کہ دل میں ایک پھانس سی اپنے آدھے سے کہیں زیادہ بھارت میں رہ جانے والے بہن بھائیوں کی وجہ سے بھی چبھی ہے) بھارت کی اس عداوت کا سارا نزلہ ہمیشہ بے چارے جموں وکشمیر پر گرتا رہاہے، جموں کشمیر کاحسن، خوبصورتی،دلکشی اور جنت نظیری اپنی جگہ،مگر اس کی جگہ کوئی اور بھی ہو سکتا تھا، مثلاََ حیدر آباد دکن یا کوئی بھی اور، یا کوئی بھی ایک ندی، نالہ،کوئی کھنڈر،کچھ بھی ہو سکتا تھا، بس بھار کو یہ وحشیانہ کھیل کھیلنے کیلئے ایک شٹل درکار تھی،جیسے کرکٹ کھیلنے کیلئے گیند، یا فٹ بال کیلئے ایک بال،یعنی چوری کرنے کو ایک رومال، اور یہ ضرورت کمال مہارت سے تاج برطانیہ کے بازی گروں نے جموں کشمیر کو ایک گیند بنا کر میدان میں ڈال دیا،اور بیری لگ پڑے کھیلنے،اور کشمیری بے چارے لگے سب جھیلنے، اب پرانے،پیارے دانشوروں سے غلطی کہاں پر ہوئی کہ انہوں نے مسئلہ ء جموں کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین ”کور ایشو“ یعنی بنیادی مسئلہ قرار دے دیا،اور پھر یہ رٹ لگاتے لگاتے ہم بھارت سے زیادہ خود بھی اس پر یقین کرنے لگے،اور ہماری ساری پالیسیاں اسی کے ارد گرد گھومنے لگیں،حالانک 1970/80کی دہائی تک ہمارے سیاسی و عسکری راہنما یہ فرمایا کرتے تھے کہ بھارت کے سینے میں تخلیق پاکستان کی پھانس چبھی ہوئی ہے، پھر یہ پھانس ہماری عقل میں چبھ گئی اور ہم بنیادی وجہ ء تنازع اور بنیادی اختلاف ہی بھلا بیٹھے، یا ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں، مگر یقین جانیں کہ بھارت کے کم از حکمرانوں نے نہ تو ایسا سمجھا اور نہ ہی اس کے مطابق پالیسیاں بنائیں، مگر ہم سب کشمیر کشمیر کی رٹ لگا کر خوش ہونے لگے، مگر بھارت نے اس کو ایک ہتھیار بنایا،اور کشمیریوں کی گردن کو پاکستان کی شہ رگ سمجھ کردبایا، حتیٰ کہ سانس تک لینا محال کر دیا،ور اقوام عالم بیٹھی جموں کشمیر کا، بھارت کا،پاکستان کا تماشا دیکھتی رہیں، پھر ایک سال،دو سال، سو سال، غرض کہ صدی کے قریب آپہنچے ہیں ہم،اس دوران بھارت نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے، باہا جنگیں مسلط کیں، ہمارے مغربی محاذ پر ہمارے بھائی جیسے افغانستان کو ہمارا دشمن بنایا، مگر جناب ہم نے ہمیشہ جمو کشمیر کو ہی کور ایشو بتایا اور خود بھی سمجھا، ابھی وقت ہے کہ ہم یہ سمجھ جائیں کہ علاج سے زیادہ مرض کی تشخٰص اہم ہوتی ہے،، اب 78سال تو بیت گئے مگر ہم مسئلہ ء جموں کشمیر کو ہی”کور ایشو“ کا سٹیٹس دیے بیٹھے ہیں، لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پاتھ میرے وطن کے دانشورو،پالیسی سازو، فیصلوں کا اختیار رکھنے والو،،ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر گورا(برطانیہ) کو مجبور کیا جائے کہ وہ آگے بڑھ کر بھارت کا نفسیاتی علاج شروع کرے،بھارت تخلیق پاکستان کے وقت سے ہی ذہنی مرض کا شکار ہے جو برطانیہ نے شوگر کے اناڑی ڈاکٹروں کی طرح بھارت کو لگایا ہے، اب اس کے علاج میں بھی اسی کو کردار ادا کرنا ہو گا،بھارت کا اصل مسئلہ اس کا تقسیم ہند کا وہ گھاؤ ہے جو اس نے خود فریبی سے خود ہی محسوس کیا اور پھر وہم کے باعث وہ گھاؤ بجائے مندمل ہونے کے پھیلتا ہی چلا گیا، بھارت کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں مسلمانوں کی سلطنت پر شب خون مارا تھا، انہیں یاد دلانا ہو گا کہ مغل مسلمان تھے، بھارتی جس ہندوستان کو ہندو ازم کی بنیاد پر اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہیں وہ سالم تو کبھی ان کا یا کسی کا تھا ہی نہیں، چھوٹے چھوٹے راجے اور نواب حکومتیں کرتے تھے، اور ان میں مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی کم نہیں تھی،جتنا کم ہم نے برصغیر کا رقبہ لیا تھا، وہ اپنے دھرم کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں، مہا بھارت اوّل آخر ساری کھنگال ڈالیں، یہ برصغیر کبھی بھی ہندووں کا ہندوستان نہیں تھا، اسے تو مسلمانوں نے تنکا تنکا جوڑ کر ایک گھر،ایک ملک بنایا، ایک مرکزی حکومت بنائی اور وہی انگریز کے پیادوں نے آکر چھینی،اور وہ بھی نادان ہندووں کی ہندوانہ عصبیت کی وجہ سے،پھر انگریز نے کم و بیش دو صدیاں اس پر حکومت کی وہ بھی ہندووں کی مسلم دشمنی کی بنا پر، مسلم دشمنی میں گوروں کا ساتھ دینے کی بنا پر، ذرا تااریخ اٹھائیں اور پڑھیں کہ تحریک آزادی کے ”جگا“ نے جو بغاوت کی،جو ڈکیتی کی راہ اپنائی، وہ کن کے خلاف تھی،انگریزوں کے علاوہ اس کا سب سے بڑا نشانہ بننے والے تو ہندو راجے اور نواب ہی تھے، اب جب انگریز دوسری جنگ عظیم کے نقصانات کی بنیاد پرواپس جانے پر راضی ہو گیا تو ہم نے،یعنی مسلمانوں نے تمہیں دُھری آزادی دی، ایک انگریز سے اور دوسری مسلمانوں کی، یعنی مغلوں کی چھنی ہوئی عملداری سے ہندوستان کی سرزمین کا بہت بڑا حصہ دے کر، ہم نے دراصل مسلمانوں کا علیحدہ وطن پاکستان ہی نہیں بنایا بلکہ درحقیقت تھوڑا سا لے کر بڑا حصہ بھارت کے نام پر تمہیں دان کر دیا، جس دن یہ بات ہندو کی سمجھ میں آگئی دراصل وہ برصغیر میں امن کا پہلا دن ہو گا،وہ جاہل سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے پاکستان الگ کر لیا،لیکن در حقیقت ہم نے ان کو پورا بھارت الگ کر کے دے دیا، تاریخ یاد ہے کیا تمہیں، کیا تمہیں یہ بھی یاد ہے کہ کتنے جَیّد اور پکے مسلمانوں نے پاکستان بنانے کی مخالفت کی،تو وہ کیا مسلمانوں کے خلاف تھے،نہیں وہ تو اپنے آباؤ اجداد کی پوری میراث سمبھالنا چاہتے تھے، وہ توپورے ہندوستان کو پاک وطن بنانا چاہتے تھے،یہ تو زمینی حقائق تھے یا اقبال کا خواب یا قائد اعظم جیسے بڑے راہنماؤں کی بات، ان کا وژن،ان کا احترام،ان کے قول کا پاس، اور ان کا آبادی کے حساب سے ویزڈم جس کو مسلم قوم نے تسلیم کیا اور وہ بڑے مسلم راہنما اختلاف کے باوجود خاموش ہو گئے،راضی ہو گئے، اور بھارت بن گیا، لیکن بھارت کو یہ سب سمجھانے سے پہلے ہمیں بحیثیت پاکستانی، کشمیری یہ سب سمجھنا ہو گا، کہ جب رام اور سیتا کے وقت اور بعد میں بھی برصغیر ایک نہیں تھا تو پھر ہندوستان ہندووں کا کیسے ہو گیا،قائد اعظم کی مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کی مانگ دراصل ہندووں کیلئے ایک علیحدہ ملک کی تجویز تھی، یہ دنیا کی جمہوری تاریخ کی سب سے بڑی جمہوری مانگ تھی، پنے لئے کم دوسروں کیلئے زیادہ کی مانگ، کہ زیادہ آبادی کیلئے زیادہ بڑا علاقہ، اور کم آبادی والے مذھب کیلئے نسبتاََ چھوٹا علاقہ، تقسیم ہند کو دراصل غلط انٹر پریٹ کیا گیا ہے، اس وقت شاید دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے کوئی بڑا تنقید نگار ہی نہیں تھا، ورنہ اس ایک مانگ اور فیصلے پر جمہوریت کے اصولوں کی درجنوں کتابیں چھپ جاتیں، بحر حال میری باتوں پر کسی بھی مسلم یا ہندو کو، بھارتی یا پاکستانی کو ایمان لانے،وشواس کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے،بس تاریخ کھنگالو مگر جغرافیے کی تلاش کیلئے،اپنی مذہبی کہانیاں پڑھو اور ان میں اپنے مذاہب کا اور قوم کا جغرافیہ ڈھونڈو، تلاش کرو، آج تک مذاہب کو سب نے اعتقاد کے حوالے سے پڑھا ہے، اب ذرا حدود اربع کی پیمائش کے حوالے سے پڑھ لو، تاکہ تمہارے ذہنوں سے قدورتیں، فتنے، اور بیر پن دور ہو سکے اور تم ایک دوسرے کو مٹانے کے بجائے ایک دوسرے کو بچانے کی طرف راغب ہو جاؤ،،،تو بات جموں کشمیر اور پاک بھارت اختلافات سے شروع ہوئی تھی،اس سب کو بھی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے،جموں کشمیر کی ہزار ہا سالہ یا قبل از مسیح اور قرب از”رام و سیتا“اور گیتا تک کی معلوم تاریخ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، بھارت جموں کشمیر کا بہانہ بنا کر اپنا ازلی بغض نہ نکالے،بلکہ یہ مان اور جان لے کہ ان کا اصل مہاتما مسٹر موھن داس گاندی سے پہلے یا ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح بھی تھے، جنہوں نے انہیں مسلمانوں کی رعایا بننے کے بجائے خود اپنی ایک حکومت، ایک مملکت دے دی، صرف مسلمانوں کو مذہبی، معاشی،معاشرتی آزادی نہیں دی بلکہ ہندو کو بھی ہندو دھرم کے مطابق جینے مرنے کی آزادی دی، دیکھیں اگر انگریز ذرا بھی ایماندار، انصاف پسند ہوتا تو اسے حکومت مغلوں، سلظان حیدر اور سلطان ٹیپو کے جانشینوں کو واپس کرنی چاہیے تھی، یعنی برصغیر کے مسلمانوں کو، اگر ایسا ہو جاتا تو تم کیا کرتے، اپنی عددی برتری پر مسلم حکمرانوں سے لڑتے رہتے؟ اور تم جانتے ہو کہ تم مسلمانوں سے کبھی جیت نہیں سکتے تھے، تو قائد اعظم کے اس احسان کا تم نے یہ بدلہ دیا پہلے اپنے ہی موھن داس گاندھی جی کو مسلمانوں کی حمایت کرنے پر مار ڈالا،پھر نفرت کا بیج ایسا بویا، کہ دنیا اور خطے کا امن کھویا، کشمیر پہ دھاوا بولا، پاکستان کو دو لخت کیا، ہمارے مغربی محاذ کے افغانوں بھائیوں کو ہمارا دشمن بنایا، خود بھی معیشت کے بجائے،سامان حرب پہ لگے ہمیں بھی لگایا، صاف پانی کے بجائے میں اور تم،ہم سب بھاری پانی کی تلاش میں بھٹکے،ذرا مڑ کر بھارت کے اندر چلنے والی آزدی کی تحریکوں کی طرف دیکھو، تو تمہیں سمجھ آئے کہ تمہارے پاس یہ برصغیر،یہ ہندستان کبھی بھی نہ تھا، یہ مختلف مذاھب اور تہذیبوں کا ایک گلدستہ تھا، چاہے مغلوں کی عملداری میں یا چاہے انگریزوں کی غاصب حکومت میں، اس لئے اب جموں و کشمیر کو اپنی ناک کان کا مسئلہ بنانے کے بجائے قائد اعظم کے دان کئے گئے بھارت کو بچانے کی فکر کرو، نفرتوں کا پیچھا کرنا چھوڑو اور محبتوں کے گلستان بناؤ، تاکہ اس نئی دنیا میں تم بھی وقار سے جی سکو، لیکن یہ تب ہی ممکن ہو گا جب تم سکھوں کو، جموں کشمیر کو،کرناٹکوں کو عزت اور وقار سے جینے دو گے، ورنہ یہ قوم ہی ختم ہو جائے گی اور تم خود اس کے قاتل ٹھہرو گے۔




