مظفرآباد

وفاقی حکومت مذاکرات نہ کرتی تو آزادحکومت کو حالات کی نزاکت کا اندازہ ہی نہ ہوتا، عدالت العالیہ آزادکشمیر

مظفرآباد(محاسب نیوز)عوامی ایکشن کمیٹی کی 29 ستمبر کو لاک ڈاؤن کیلئے دی جانے والی کال کے خلاف دائر 2رٹ پٹیشنز کو یکجا کر کے ہائی کورٹ آزاد کشمیر میں سماعت۔سینئر جج ہائی کورٹ جسٹس سید شاہد بہار اور جسٹس سردار اعجاز خان پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کسی بھی شہری کو اپنے جائز حقوق کے لیے پرامن احتجاج سے روکا نہیں جا سکتا، آئین حکومت اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ ہے، ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اور عوام کے خون پسینے کے ٹیکسوں سے چلتی ہے، ریاست بزور بازو کسی احتجاج کو نہیں روک سکتی اور نہ ہی عدالت ایسا کرنے کی اجازت دے گی۔سماعت کے دوران درخواست گزار سردار عمران حسین کے وکیل بلال شکیل ایڈووکیٹ سے عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے اپنی رٹ میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو بطور فریق شامل نہیں کیا، اس صورت میں یہ وضاحت درکار ہے کہ نوٹس کس کو جاری کیا جائے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ جہاں عوامی بنیادی حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہو وہاں عدلیہ مداخلت کرتی ہے، لیکن عوام کا احتجاج بھی آئینی حق ہے،عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل راجہ سعید سے استفسار کیا کہ یہ رٹ پٹیشنز قابلِ سماعت ہیں یا نہیں؟ بینچ نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ رٹ قابلِ سماعت ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے جو عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی میں ناکام ہو چکی ہے، اور اگر یہ ناقابلِ سماعت ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے فرائض انجام دے رہی ہے اور یہ پٹیشنز خارج ہو جائیں گی۔بینچ نے حکومت آزاد کشمیر کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی حکومت حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات نہ کرتی تو آزاد کشمیر حکومت کو حالات کی نزاکت کا اندازہ ہی نہ ہوتا۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ بھی ہمارے جوڈیشل نوٹس میں ہے کہ آزاد کشمیر کے چند وزراء عوام کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں، جو کسی طور درست عمل نہیں۔عدالت نے مزید سماعت کے لیے ایڈووکیٹ جنرل شیخ مسعود اقبال کو آج بروز جمعۃ المبارک صبح 9 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ دونوں رٹ پٹیشنز پر مزید کارروائی آج ہی ہوگی۔

Related Articles

Back to top button