کالمز

پارلیمنٹ سے غزہ تک

تحریر: مفتی محمد حنیف
دنیا کی سیاست اور اقتدار کی دنیا ایک عجیب کھیل ہے۔ یہاں لوگ وزارتوں کے خواب دیکھتے ہیں، کرسیوں کی تمنا کرتے ہیں، دولت کے انبار لگانے کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ لیکن کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اللہ دل کی گہرائیوں میں وہ تڑپ عطا کرتا ہے جو انہیں باقی انسانوں سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ وہ مناصب کی چمک دمک اور دنیا کی آسائشوں کو اپنے قدموں کی ٹھوکر پر رکھ کر امت کے دکھوں میں گھلنے لگتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل کامیابی نہ تو وزارت ہے اور نہ ہی شہرت، بلکہ مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنا اور بے کسوں کی سسکیوں میں شریک ہونا ہے۔ انہی عظیم لوگوں میں پیر محمد مظہر سعید شاہ کا نام ہے جنہیں اللہ نے عزت دی، قانون ساز اسمبلی کا ممبر بنایا، وزارت عطا کی، دنیا کی آسائشیں ان کے قدموں میں ڈال دیں مگر وہ راتوں کو چین کی نیند نہ سو سکے۔
ان کے کانوں میں غزہ کے یتیم بچوں کی سسکیاں گونجتی رہیں۔ ان کے سامنے صیہونی بمباری کے وہ مناظر آتے جن میں معصوم جسم لہو لہان ہوتے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ ماں آتی جس کا بچہ ملبے تلے دم توڑ رہا ہوتا، وہ باپ آتا جو اپنے پورے خاندان کو کھو کر خالی ہاتھ کھڑا ہے۔ وزارت کی کرسی انہیں سکون نہ دے سکی، ایوانوں کی رونقیں ان کے دل کی بے قراری کو ختم نہ کر سکیں۔ دن کی روشنی بھی ان کے لیے ایک مسلسل اندھیرا بن گئی اور رات کی خاموشی بھی ان کے دل میں ہلچل پیدا کرتی رہی۔ یہی تڑپ انہیں پارلیمنٹ کے ایوانوں سے نکال کر سمندر کی بے رحم لہروں کے حوالے کر گئی۔
عالمی پانیوں میں جب انہوں نے قدم رکھا تو مشکلات نے ان کا استقبال کیا۔ کشتی میں فنی خرابیاں پیدا ہوئیں، نو طویل گھنٹوں تک دنیا سے رابطہ منقطع رہا۔ ہر لمحہ موت کے سائے منڈلاتے رہے۔ مگر پیر محمد مظہر سعید شاہ اور ان کے رفقاء کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ اس کے بعد تین دن ایسے آئے جب قافلہ صرف بسکٹ اور خشک خوراک پر گزارا کرتا رہا۔ بھوک اور پیاس نے ان کے جسموں کو کمزور کر دیا مگر ان کے دل اور ایمان کو اور مضبوط کر دیا۔ کشتی کی ہر جھول اور سمندر کی ہر لہر ان کے لیے ایمان کی تقویت کا ذریعہ بن گئی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سفر کسی ذاتی مقصد یا دنیاوی شہرت کے لیے نہیں بلکہ غزہ کے بے سہارا یتیموں، زخمیوں اور شہداء کے خاندانوں کے ساتھ جینے مرنے کے لیے ہے۔
اٹلی کے ساحل سے گزرنے کے بعد جب یہ قافلہ یونان کی حدود میں داخل ہوا تو فضا میں ڈرونز کی پروازیں شروع ہو گئیں۔ یہ ایک نیا امتحان تھا۔ لیکن بجائے گھبراہٹ کے، ان مناظر نے ان کے حوصلوں کو اور بلند کر دیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا ہر قدم غزہ کی دعاؤں کے سائے میں ہے۔ ان کا ہر لمحہ ان بچوں کی امید کا چراغ ہے جو بھوک اور پیاس کے باوجود صیہونی بربریت کے سامنے کھڑے ہیں۔
غزہ آج بھی لہو لہان ہے۔ معصوم بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، زخمی علاج کو ترس رہے ہیں، عورتیں بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں اور بوڑھے اپنی زندگیاں قربان کر کے بھی سکون نہیں پاسکے۔ اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، اسکول مٹ چکے ہیں، اور پوری بستی قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں تماشائی ہیں، اقوامِ متحدہ بے بس ہے اور مسلم حکمران اپنی کرسیوں میں قید ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنی وزارت اور منصب کو چھوڑ کر سمندر کے راستے نکلا ہے تو وہی دراصل امت کے غیرت مند سپوت کی پہچان ہے۔ پیر محمد مظہر سعید شاہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایمان کی حرارت آج بھی زندہ ہے، غیرتِ مسلم آج بھی باقی ہے، اور امت کے اندر وہ جذبہ آج بھی موجود ہے جو صدیوں پہلے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔
یہ قافلہ استقامت صرف چند افراد کا سفر نہیں بلکہ پوری امت کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا ایک پیغام ہے۔ یہ اعلان ہے کہ غزہ اکیلا نہیں، فلسطین تنہا نہیں، بلکہ پوری امت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ پیر محمد مظہر سعید شاہ کی قربانی یہ باور کرا رہی ہے کہ اصل کامیابی اقتدار اور وزارت نہیں بلکہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو کر کھڑا ہو۔ یہ داستان ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تاریخ میں نام وہی باقی رہتے ہیں جو اپنے دلوں کو امت کے دکھوں میں گھلاتے ہیں۔
سلام ہے پیر محمد مظہر سعید شاہ کو جو پارلیمنٹ کی چکاچوند چھوڑ کر امت کے دکھوں کا بوجھ اٹھانے سمندر کی تیز لہروں کے حوالے ہوگئے۔ ان کے قدم ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ایمان ہو تو سمندر راستہ دے دیتا ہے، یقین ہو تو بھوک اور پیاس طاقت میں بدل جاتی ہے، اور مقصد پاکیزہ ہو تو موت بھی راہ کا کانٹا نہیں رہتی۔
اے اللہ! اس قافلہ استقامت کو اپنی خاص امان میں رکھ، ان کے دلوں کو رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ کی دعا کا مصداق بنا۔ اے اللہ! جب یہ سمندر کی موجوں سے ٹکرائیں تو ہُوَ الَّذِی یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِکی برکت سے اپنی حفاظت میں لے لے۔ اے اللہ! ان کے آنسو غزہ کے یتیموں کے لیے مرہم بنیں اور ان کی دعائیں غزہ کے شہداء کے خون کو قبولیت کا لباس پہنائیں۔ اے اللہ! ان کی یہ کاوش امت کی بیداری اور نصرتِ دین کا ذریعہ بنے۔ اے اللہ! مظلومانِ غزہ پر اپنی رحمتیں نازل فرما، ان کے زخموں کو شفا دے، ان کے یتیموں کو سہارا دے اور ان کی دعاؤں کو قبولیت کی روشنی عطا فرما۔ اے اللہ! اس قافلہ استقامت کو اپنی منزل تک بخیریت پہنچا اور ان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابیاں مقدر فرما۔ آمین یا رب العالمین۔

Related Articles

Back to top button