کالمز

ویلڈن جائنٹ ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر

محمد شریف اعوان ناظم اعلیٰ تعلیم (ر).

قارئین کرام! اللّٰہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر جس کے فضل سے آزاد کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال بخیریت اپنے انجام کو پہنچی۔ شکر خداوندی کے بعد وزیراعظم پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔جنہوں نے بیرون ملک مصروفیات کے باوجود کشمیر کے معاملہ کے باوقار حل کے لیے انتہائی تجربہ کار سینئر سیاستدانوں کی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی۔ جنہوں نے اپنی اعلی سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے معاملات پر سیر حامل مذاکرات کرتے ہوئے خطرناک صورتحال کو خوش اسلوبی سے ختم کیا۔ اصل شکریہ کے مستحق جائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران ہیں، جنہوں نے کمال کر دکھایا۔اس بات میں مبالغہ نہیں کہ آزاد کشمیر کی عوام ایک عرصہ سے ان مسائل کا شکار تھی۔جس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ پورے آزاد کشمیر میں ایکشن کمیٹی کی کال پر عوام نے جان و مال کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر کمیٹی کے پروگرام پر ثابت قدمی دکھائی۔عوامی ایکشن کمیٹی نے کشتیاں جلا کر جس ہمت و حوصلہ سے احتجاج کیا یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح پاکستانی سیاستدانوں پر مشتمل کمیٹی کے ساتھ ذمہ دارانہ انداز میں مذاکرات کر کے جن مطالبات کو فوری تسلیم کروایا وہ سب کے سب اجتماعی نوعیت کے ہیں۔بدقسمتی سے یہ دیرینہ مطالبات مختلف ادوار میں حکومت کے ایوانوں تک پہنچائے جاتے رہے مگر آزاد کشمیر کے سیاسی قائدین کرسی اقتدار پر پہنچ کر ہمیشہ مصلحت کا شکار ہوتے رہے۔ اور ان بنیادی عوامی ضروریات کو محض بیانات کی حد تک لیتے رہے۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جن قابل احترام نمائندوں کو ووٹ لے کر نمائندگی کے لیے بھیجا گیا وہ موجودہ اسمبلی پہ حق ادا کرنے کی بجائے مطالبات کرنے والوں بالخصوص مراعات کے خاتمہ کی بات کرنے والوں کے مقابلے میں party بن گئی۔ اور مایوس کن Role ادا کیا۔ اس ساری صورتحال میں آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاسی قیادت بظاہر غائب اور ذات کی نمائندگی کرتی نظر آئی۔ بلکہ بعض اعلیٰ سیاستدانوں کے بیانات دیکھ کر تعجب ہوا جو کہتے تھے کہ آزاد کشمیر میں اشرافیہ ہے ہی نہیں۔ مراعات کے نام سے انھیں چڑ ہوتی تھی۔ یہ بات پوشیدہ تو نہیں تھی کہ تقریبا تمام اسمبلی ممبران کابینہ کا حصہ تھے۔ ایک ایم۔ ایل۔اے جب وزیر بن جائے تو مراعات اخراجات کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کو باقی مراعات سے دستبردار ہونا گوارا نہیں ہے۔ اسی طرح اعلی بیورکریسی کی مراعات کا بھی سب کو علم ہے۔ بہرحال ایکشن کمیٹی کی جدوجہد جانی اور مالی قربانیوں کے بعد عوام کی آواز بنی۔ جن کی ایک مثال دو تعلیمی بورڈز کا قیام اجتماعی ضرورت تھی۔ مگر ہمارے کسی منتخب نمائندے کو توفیق اور ہمت نہیں ہوئی کہ اس کے حق میں بیان تک دیں۔ اسی طرح دیگر تمام منظور شدہ مطالبات کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے۔یوں لگتا تھا کہ ہمارے اسمبلی ممبران عوام کے نہیں صرف حکومت کے نمائندے ہیں۔ اور سارے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نہیں بلکہ ذاتی مفادات اور سہولتوں کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر متحد اور ایک پارٹی ہیں۔
قارئین کرام! ہر فرد یہ دیکھ رہا ہے، اور اتنی سمجھ رکھتا ہے کہ ہمارے اکثر نمائندے صرف سکھوں کی من پسند بندر بانٹ۔ملازمین کے تبادلوں اور تقرریوں میں ڈنڈی مارنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ ان کے نزدیک میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بھلا ہو ایکشن کمیٹی کا جس نے عوام کو شعور دیا ہے۔اب نمائندگان کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ہر نمائندے کے حلقہ کا انجام دیئے گئے کاموں کی فہرست منظر عام پر لائی جائے گی۔ جائز اور ناجائز کا پتہ مل جائے گا۔ جناب چودھری ابراہیم صاحب چیف جسٹس (ر) کے چند دن قبل لکھے گئے کالم سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی تقاضوں کے مطابق عوام کی فلاح سے متعلق اسمبلی کا ایک اجلاس بھی نہیں ہوا، صرف قراردادیں پاس کرنے یا پاکستان کی کسی سیاسی شخصیت کے خطاب کے لیے اجلاس ہوتے رہے۔ غور کریں کہ قانون ساز اسمبلی نے کتنی قانون سازی کی، عوام کو کیا دیا۔ صرف بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ جان بوجھ کر بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز سے دور رکھا جا رہا ہے۔
قارئین کرام! اس میں شک نہیں کے لفظ ہڑتال ہر اعتبار سے خطرناک ہوتا ہے۔ جیسا کہ اب کی بار بھی جانی نقصان ہوا۔اس سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ ہمارا ازلی مالی نقصان بھی ہوا۔ اس سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت جو سازشوں کے جال بچھانے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ وہ ایسے مواقع کی تلاش میں بیٹھا رہتا ہے کہ ایسے موقع سے ناجائز فائدہ اٹھائے۔ اس دفعہ بھی اس کا پروپیگنڈہ ریکارڈ پر ہے۔ اس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے کہ عوام کی ضروریات اور جائز مطالبات پر سیاسی اور حکمران قیادت کو بیان بازی کے مقابلے میں نہیں پڑنا چاہیے، اور نہ دھمکیوں کا انداز اپنانا چاہیے۔ عوام کو سڑکوں پر آنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہیے۔ اور قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔کاش ہم حالات سے سبق سیکھ سکتے۔
قارئین کرام! منظور شدہ مطالبات کی فہرست دیکھ کر اندازہ ہوتا کہ یہ سارے مطالبات عوام کی بنیادی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ جو آج تک مختلف حکومتیں حل کرنے کی بجائے جمع کر کے رکھتی رہی ہیں۔ اس کا کریڈٹ بجا طور پر جائنٹ ایکشن کمیٹی کو جاتا ہے۔ یہ بات ہر فرد کی زبان سے سنی جا رہی ہے۔ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ گڑھی دوپٹا اور ٹھوٹھہ وغیرہ کے تمام تاجروں نے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ مگر اپنے دو جائز مطالبات شامل نہیں کروا سکے۔جس کے لیے شاید انہیں الگ سے سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ جن میں گڑھی دوپٹا سب ڈویژن کا قیام اور کچھ عرصہ پہلے ٹھوٹھہ کے قیام پر 50 بستروں کے ہسپتال کی خبروں کی روشنی میں پتہ کرنا تھا کہ وہ کیسے گدھے کے سینگوں کی طرح کدھر غائب ہو گیا۔اب عوام جاگ گئی ہے، وقتاً فوقتاً حساب لیتی رہے گی۔آخر میں ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے اپیل کرونگا کہ اپنی تاجر برادری کو سمجھائیں کہ عوام نے ان کا تاریخی ساتھ دیا ہے۔اب عوام کی چمڑی کا خیال رکھیں، یہ عوام پھر کام آئے گی۔موجودہ اسمبلی کے قابل صداحترام ممبران کی خدمت میں بھی ایک تجویز پیش کرتا ہوں کہ موجودہ آپس کے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ الیکشن موجودہ اپوزیشن ارکان کے علاوہ سارے ایک کسی جماعت کے پلیٹ فارم سے لڑیں۔اور مراعات یافتہ طبقہ سے اپیل ہے کہ صحابہ کرام کے طرز حکومت کو ماڈل سمجھ کر مراعات رکھیں۔ یہ انگریز کے طرز پر نوکر چاکر اور شاہی مراعات ان کے شاہانِ شان نہیں۔از خود واپس کر دیں۔ شاید کہ اتر جائے کسی کے دل میں میری بات۔

Related Articles

Back to top button