بھارتی قبضے کی وجہ سے کشمیریوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے

سرینگر(کے ایم ایس)جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب 27اکتوبر 1947کو شروع ہواجب بھارتی فوجیں بغیر کسی قانونی جواز کے زبردستی سرینگر میں اتریں اورکشمیری عوام کی مرضی کے بر خلاف ریاست جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قبضہ جما لیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ان78برسوں کے دوران جو کچھ ہوا وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معصوم اور نہتے عوام کے لیے ناقابل تصور مصائب کی ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرایک ایسی جگہ ہے جہاں بھارتی فوج ، پیراملٹری سنٹرل ریزرو پولیس فورس ،بارڈر سیکورٹی فورس ،انڈو تبتین بارڈر پولیس ،سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز ،پولیس کااسپیشل آپریشنز گروپ اور بھارتی فضائیہ کے 11لاکھ اہلکار نہتے اورمظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ہرعلاقے میںفوجی چھاﺅنیاں قائم کی گئی ہیںجن میں سیاحتی مقامات، اور صحت افزاءمقامات بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ مسلسل محاصرے میں ہیں۔کشمیریوں کوایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے متعدد چوکیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں پرامن احتجاج کے لیے بھی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ بھارتی فورسز کی گولیوں، پیلٹوں اور آنسو گیس کے گولوں سے ہزاروں افراد زخمی ہو چکے ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پیلٹ لگنے سے کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی بینائی سے محروم ہو چکی ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی افواج کے ظالمانہ ہتھکنڈے جاری ہیں اور1989سے اب تک 96ہزار476سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں جن میں سے7,406دوران حراست اور جعلی مقابلوں میں شہید کئے گئے ہیں۔ ان شہادتوں کے نتیجے میں22ہزار990خواتین بیوہ اور 108,005بچے یتیم ہوچکے ہیں، جبکہ 11,268سے زائد کشمیری خواتین کو بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ اس عرصے کے دوران 8000سے زائد کشمیریوں کوگرفتارکرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرہر دن دکھ کی ایک نئی داستان، اذیت کی ایک تازہ کہانی اور تشدد، صدمے، گرفتاریوں، املاک پرقبضے، گھروں پر چھاپوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کا ایک اور ہولناک واقعہ لاتا ہے۔ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (AFSPA)، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کاایکٹ (UAPA)، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) ، ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ اور ٹاڈا جیسے کالے قوانیں کی آڑمیں بھارتی فورسز نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ بھارتی فورسز کے اہلکار مقبوضہ علاقے میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، مشتاق الاسلام ،ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف،ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ڈاکٹر حمید فیاض، عبدالاحدپرہ، ایڈووکیٹ زاہد علی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، ظفر اکبر بٹ، غلام قادر بٹ، رفیق احمد گنائی، شکیل احمدا یتو، عمر عادل ڈار، سلیم نناجی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، نور محمد فیاض، شوکت حکیم، ظہور احمد بٹ، عادل سراج زرگر، داﺅد زرگر، معراج الدین نندا، اسد اللہ پرے، شبروز بانو، آفرینہ گنائی، ظہور وٹالی، مفتی اعجاز، مفتی شاہنواز، نگینہ منظور، منیرہ بیگم، سفینہ بیگم ، عشرت رسول ،انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، صحافی عرفان مجید اور دیگر کو انہی کالے قوانین کے تحت بھارت اورمقبوضہ جموں کشمیر کی مختلف جیلوں میں نظربند رکھا گیا ہے۔ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگوں کو پی ایس اے کے تحت تقریبا دو دوسال اور یو اے پی اے کے تحت پانچ پانچ سال تک نظربند رکھا گیا تھا، بعد میں عدالتوں نے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر ان کوبری کر دیا ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگ ان ناانصافیوں اورمظالم کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہے ہیں اور وہ اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔




