مقصد ِ حیات اور عابدضمیر ہاشمی کی تحقیقی دُنیا

انسان کی تخلیق پر تحقیق کریں تو واضح ہو تا ہے کہ بنا مقصد اسے تخلیق نہیں کیا گیا۔انسان کے تخلیق سے بھی پہلے یہ کائنات سجائی گئی۔ہم غوروفکر کی دُنیا میں غوطہ زن ہوں تو معلوم پڑتا ہے۔یہ زمین وآسمان کی تخلیق،حتی کہ انسان کی تخلیق بنا مقصد کے ہوئی ہی نہیں۔یہ مقصد کیا ہے؟اس مقصد کی تلاش میں انسان سر گرداں ہے۔اس مقصد کو پانے کے لیے ہر ذی شعور اپنے اپنے طور پر کوشش میں ہے۔
پچھلے دنوں عابد ضمیر ہاشمی صاحب کی کتاب ”مقصدِ حیات“پڑھنے کا موقع ملا۔تب سے اب تک سوچوں کی یلغار میں قید ہوں۔اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات سجائی،زمین وآسمان بنائے،مخلوقات تخلیق کی،سب سے بڑھ کر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اپنا نائب بھی بنایا۔آخرکیوں؟ہماری تخلیق کا مقصد کیاہے؟سوچوں کا لامحدود سلسلہ ہے جو ختم ہونے کو نہیں ہے۔
روئے زمین پر انسان بنا مقصد کے زندگی گزار رہا ہے؟ہاں تو کیوں؟۔نہیں تو کیوں؟اس کیوں کا جواب ہمیں تلاشنا ہے۔حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کئی انبیاء کرام تشریف لائے۔کیوں؟شاید اس لیے کہ ہم جس مقصد کے لیے روئے زمین پر بھیجے گئے وہ بھول نہ جائیں۔بھولنا تو ایک طرف،وہ مقصد کیا ہے جس کو ہم بھول رہے ہیں؟ہمارا اس دُنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟کیا یہی ہمارا مقصد ِ حیات ہے؟۔ہاں تو ہم اس مقصد میں کتنے فیصد کامیاب ہوئے؟زیر نظر کتاب پڑھ کر آپ بھی میری طرح ”کیوں“پر غوروفکر کریں گے۔
عابد ضمیر ہاشمی کی ضخیم کتاب ”مقصد ِ حیات“جو ۰۵۵صفحات کی ضخامت لیے ہوئے ہے یہی درس دے رہی ہے کہ اے انسان تو مقصد ِ حیات کو بھول بیٹھا ہے۔ہو ش کر اپنے آپ کو پہچان اور مقصد ِ حیات کو پا لے۔”مقصدِ حیات“عابد ضمیر ہاشمی معاشی،علمی صحافتی،معاشرتی،اخلاقی،تاریخی،سفارتی پہلوؤں پر مشتمل عرق ریزی کرتے ہوئے ماضی،حال اور مستقبل کی روشنی میں،اپنی تحقیق قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔
اسی کتاب میں شامل ایک کالم ”نفرت انسان سے ہے،جرم سے نہیں“میں عابد ضمیر ہاشمی کا یہ انداز دیکھیے:”انسان میں فطری جذبات و احساسات میں سے محبت سب سے اہم جذبہ ہے۔محبت کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔اسلام بھی انسان کو محبت پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ایک مسلمان محبت کا پیکر ہوتا ہے۔وہ لوگوں میں نفرت کے کانٹے نہیں،بلکہ پیاروالفت کے پھول بانٹتا ہے۔محبت کا اظہار صرف صنف مخالف ہی کے لیے نہیں ہوتا،بلکہ اولا د کے لیے بے انتہا شفقت،والدین کی خدمت،بزرگوں کی عقیدت اور دوست احباب کی رفاقت کے ان گنت رنگوں سے سجی زندگی محبت کا اظہار ہی تو ہے۔سب سے مضبوط رشتہ جو افرادکو کنبے،سماج اور قوم بناتا ہے،وہ محبت ہی ہے۔“
عابد ضمیر ہاشمی ایک عرصہ سے کالم نگاری کر رہے ہیں۔مقصدِ حیات پڑھتے ہوئے ان کا طرز نگارش گرویدہ کر لیتا ہے۔سادہ عام فہم میں اپنا مقصد پا لیتے ہیں۔ کہیں احساسات جگاتے ہیں تو کہیں ضمیر کو جھنجوڑتے ہیں۔کہیں ناصحانہ انداز اپناتے ہوئے تاریخ کے اوراق پلٹتے نظر آتے ہیں۔ہر رنگ و انداز جدا ہے
”مقصدِ حیات“کہنے کو کالموں کا مجموعہ ہے۔جو مختلف اخبارات میں شایع ہوتے رہے لیکن کتابی صورت میں وجود پاکر ہمیں تصوف،فلسفہ،سماجی،سیاسی،ملکی اور بین الاقومی،اخلاقی اور روحانی دُنیا کی سیر کراتے ہیں۔کہیں فکر اقبال ہے تو کہیں نوجوانوں کا نوحہ،کہیں سماجی اُلجھنوں کا پرچار ہے تو کہیں جنت نظیر وادی کا غم۔کہیں بیماریوں کی روک تھام کی سنجیدگی ہے تو کہیں جنگی جنون پر اشک باری ہے۔
عابد ضمیر ہاشمی کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیں ملکوں ملکوں سیر کراکر،وہاں کے معاشی حالات اور ان کے حل کے بارے آگاہی دیتے ہیں۔کہیں عالمی دن مناتے نظر آتے ہیں تو کہیں سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری پر کلام ہے۔کہیں عید روز کے روز کسی غریب کی بیٹی کی آواز بنتے ہیں تو کہیں بے روز گاری کے مسئلہ کو اجاگر کرتے ہیں۔
نادر ضمیر ہاشمی نے خوب صورت بات کی ہے کہ مطالعہ سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ناحق لڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔زبان کھلتی ہے اور کلام کا طریقہ آتا ہے۔ذہن کھلتا ہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔علوم حاصل ہوتے ہیں۔لوگوں کے تجربات اور علما ء وحکما کی حکمتوں کا علم ہوتا ہے۔اگر آپ ”مقصد ِ حیات“کا مطالعہ کر لیتے تو ایک طرف دُنیا کی سیر کر لیتے ہیں تو دوسری طرف بہت سے مسائل کا حل پالیتے ہیں۔
کچھ احباب فرماتے ہیں کہ ”کالم“کی زندگی ایک دن ہوتی ہے۔ان کے علم کی وسعت اپنی جگہ،نظریاتی طور پر انھوں نے جو فرمایا ٹھیک فرمایا ہوگا لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔لفظ کو موت نہیں ہے۔ایک بار قلم سے قرطاس کا سفر کر لیا،وہ امر ہو گیا۔وہ زندہ ہوگیا،نسلیں ان کو پڑھتی رہیں گی۔جس کا جتنا ظرف ہوگا اتنا وصول کرتا رہے گا۔
لکھنا خداداد صلاحت ہے۔کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے قلم تھما دیا۔جس کے ہاتھ میں قلم ہے اور قلم سے نکلے لفظ اگر موتی بن جائیں تو لکھنے والی کی زندگی سنور جاتی ہے۔عابد ضمیر ہاشمی نے اپنے نام کی طرح لفظوں کاتقدس پہچان کر قرطاس کے حوالے کیا ہے۔ان کے لکھے حرفوں نے ان کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔
عابد ضمیر ہاشمی ”مقصدِ حیات“میں اندر کے عابد ضمیر ہاشمی سے ہمیں ملوایا ہے۔وہ عابد ضمیر ہاشمی جو اپنے ضمیر کی آواز سنتا ہے اور دوسروں کے ضمیر انسانیت کے جذبے سے بیدار کراتا ہے۔اللہ کی مخلوق سے ملاقاتیں کراکر اللہ سے ملواتا ہے۔فانی دُنیا میں رہ کر حقیقت کی دُنیا کی سیر کراتا ہے اور ہر بھٹکے ہوئے کو اصل مقصدِ حیات کا درس دیتا ہے۔
عابد ضمیر ہاشمی ”مقصدِ حیات“میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ کتاب کے اندر شامل نامور شخصیات کے کلام سے باخوبی ہوتا ہے۔ہر اہل نظر و اہل دانش نے اس کتاب کو سراہا ہے۔اس کے گن گائے ہیں۔یہ عابد ضمیر ہاشمی کی عرق ریزی کا بین ثبوت ہے۔ان کا قلم جوان اور متحرک ہے۔ان کا مشاہدہ وسیع ہے اور عمیق نظر سے دُنیا پہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔
”مقصدِ حیات“میں عابد ضمیر ہاشمی اپنی صاف گوئی،راست بیانی اور سادگی سے ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔جس طرح ان کا قلم بے باک اور نڈر ہے اسی طرح عابد ضمیر ہاشمی بھی بلاخوف اپنی بات قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔مصلحت کوشی کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے۔دیدہ دلیری سے اپنی بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔اگر آپ نے یہ کتاب ابھی تک نہیں پڑھی تو آپ قیمتی خزانے سے محروم ہیں۔میری دعا ہے کہ اسی طرح عابد ضمیر ہاشمی اپنی آواز بلند کرتے رہیں اور ملت و قوم کے ضمیرجھنجوڑتے رہیں۔آخر میں ایک شعر ان کے لیے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
٭٭٭٭٭٭




