کالمز

06 نومبریوم شہدائے جموں

تحریر(محمدجاوید ملک)

06 نومبر1947کا دن تاریخ کشمیر کا ہی نہیں بلکہ انسانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس میں ڈوگرہ پولیس،فوج اور راشٹریہ سوک سنگھ کے غنڈوں نے جموں وکشمیر کے 2لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو محبت پاکستان میں شہید کردیا۔دنیا کی تاریخ میں دو تین دنوں میں اتنی شہادتیں کہیں بھی نہیں ہوئی جتنی سانحہ جموں میں ہوئی۔14 اگست1947 کو مملکت خداداد پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے بے حد مسرت کا اظہار کیا اور جشن منایا۔ریاست کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947 کوقیام پاکستان سے قبل غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ سرینگر میں الحاق پاکستان کی قراردادمنظور کرکے ریاست کے لوگوں کامستقبل پاکستان سے وابستہ کردیا جس پر ریاست جموں وکشمیرکی فضاء ”پاکستان زندہ باد، قائداعظم زندہ باد، کشمیربنے گاپاکستان“کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھی۔ مسلمانان کشمیر کا یہ جذباتی جذبہ دیکھ کرہندووں اور ڈوگروں پر خوف طاری ہوگیاتھا۔04 نومبر کو مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے اعلان کرویا گیا کہ جوبھی مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں انہیں باحفاظت پاکستان پہنچایا جائے گا۔یہ اعلان خود ساختہ اور مسلمانوں کوختم کرنے کاایک سنگین منصوبہ تھا جس کے جھانسے میں مسلمان آگے چنانچہ اودھم پور، ریاسی، کٹھوعہ، رام نگر سمیت دیگر علاقوں میں ہزاروں افراد کودھوکہ اور فریب کے ذریعے گھروں سے باہرنکال کرجموں پولیس پریڈ گراونڈمیں جمع کیا گیا۔اس سے قبل جموں میں اگست کے مہینے میں مہاراجہ کی ایماء پر آر ایس ایس کے رضا کار اور پنجاب کے سکھوں میں 7ہزاررائفلیں تقسیم کی گئیں اور انہیں ہدایت دی گئیں کہ وہ مسلمانوں کاقتل عام شروع کردیں جس پرمسلمانوں نے ڈوگرہ کے خلاف مقابلہ کافیصلہ کرلیا تو حالات کی خرابی دیکھ کر04نومبر کو جموں پولیس لائن گراؤنڈ میں مسلمانوں کو جمع کرنے اور پھرانہیں پولیس اور فوج کی سرپرستی میں لاریوں، بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے پاکستان پہنچانے کاانتظام کرنے کا اعلان کروایا گیا۔ یہ اعلان سنتے ہی مسلمانان جموں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے پولیس لائن گراؤنڈ میں جمع ہوناشروع ہوگئے جہاں مسلمانوں سے اسلحہ بھی جمع کرلیا گیا اور انہیں صرف ایک بستر اور ایک صندوق لے جانے کی اجازت دی۔ 05 نومبرکو36گاڑیوں اورٹرکوں پر مشتمل کاایک قافلہ چیت گڑھ سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوا، ایک ایک گاڑی میں 70 سے 80 مسلمان سوار تھے، ابھی چند ہی کلومیٹر یہ قافلہ روانہ ہواتھاتو اس کارخ سوچیت گڑھ کے بجائے سانبہ کی طرف موڑدیاگیا یہ قافلہ سانبہ سے آگے ستواری پہنچا تو وہاں سڑک کے دونوں جانب اور پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپے ہندوؤں اورراشٹریہ سوک سنگھ کے جھتے جن کے پاس رائفلیں اور دیگر اسلحہ بھی تھانے ٹرکوں کوروک کر مسلمانوں پرفائرکھول دیا،قافلے سے نقدی اور زیورات چھین لیے گے عورتوں کواغواہ کرلیااس طرح اگلے روز وہی گاڑیاں 06 نومبر کو دوبارہ 70 ٹرکوں اور بسوں پرمسلمانوں کولیکرآئے تو اسی جگہ ہندوؤں درندوں نے گولیوں، برچھیوں،کلہاڑوں، تلواروں کابے دریغ استعمال کرکے مسلمانوں کو مولی گاجرکی طرح کاٹ دیاگیا۔ پولیس انسپکٹر راجہ صحبت علی آف بنڈالہ اور ڈپٹی کمشنراودھم پور راجہ سرور خان آف پنجڑی مسلمانوں کے قافلوں کوبچاتے بچاتے بھی شہید ہوگئے۔سابق سیکرٹری حکومت عبدالرشید ملک بھی سی سانحہ میں بچ کر پاکستان آنے والوں میں شامل تھے۔ہندووں سے بچ کر آنے والوں کے سامنے مسلمانوں کی شہادتیں اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات سنانے سے زبان لڑھ کھڑا جاتی تھی۔یہ صورتحال ریاست کے دیگر علاقوں میں پھیل گئی جس نے قتل وغارت کی واردداتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ہندووں نے جموں میں مسلمانوں کے مکانوں، گھروں اور دکانوں کو لوٹنے کے بعد جائیدادوں کو نذر آتش کر کے ساری املاک کوخاک میں ملادیا۔ ایک انگریزی اخبار نے اپنی رپورٹ میں تحریرکیاتھاکہ ان واقعات میں 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کوقتل کردیا گیا۔ شہداء جموں کی قربانیوں کے نذرانہ تاریخ کاایک اہم حصہ ہیں ایک دن اور ایک رات میں انسانی جانوں کی اتنی قربانیاں کہیں بھی نہیں دی گئیں۔سانحہ جموں کے چشم دیدہ گواہ میجر(ر) راجہ عبدالرحمان خان کوسابق سیکرٹری حکومت راجہ امجدپرویز علی خان جب میرپور میں کمشنر تھے 06 نومبریوم شہدائے جموں کے مواقعوں پر اکثراوقاف میرپورلاتے رہے اور ان کی زبانی آنکھوں دیکھا حال اوردرد ناک سانحہ کی داستان بیان کرتے تھے۔وہ بتاتے تھے کہ ظالم درندہ صفت ہندوؤں نے انسپکٹرجموں راجہ صحبت علی آف بنڈالہ سمیت پاکستان جانے والے مسلمانوں جن میں مرد، عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے کو جس بے دردی سے شہید کیااس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔دریائے توی کے کنارے مسلمانوں کے ا عضاء تنکوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔انسپکٹرراجہ صحبت علی کی نعش سے ان کی انگلیوں میں لگی سونے کی انگوٹھیاں انگلیاں کاٹ کراتارلیں۔ان واقعات میں مسلمانوں کومولی گاجرکی طرح کاٹ دیاگیا خواتین کی عصمت دری کی گئی ہرطرف خون کادریابہہ رہاتھا۔06 نومبرکادن جب بھی آتاہے تو وہ منظرسامنے آکرکلیجہ منہ کوآتاہے۔سانحہ جموں کاواقعہ تحریک آزادی کشمیر کاگیٹ وے ہے۔ اس واقعہ کوسامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کوتحریک آزادی کشمیر اسی تناظر میں اجاگرکرنے کے لئے ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور اتحاد ویکجہتی کی فضاء کو فروغ دینا چاہیے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر کے اصل صورتحال سے آگاہ کرناچاہیے۔ آج بھی مقبوضہ وادی میں بھارت کی 10لاکھ فوج ظلم اوربربریت کاپہاڑتوڑرہی ہے۔ تحریک آزادی کشمیرکودبانے کے لیے اب بھارتی افواج نے پیلٹ گنوں کااستعمال کرکے اہل کشمیرکوآنکھوں کی بصارت سے محروم کرنے کی مہم شروع
کررکھی ہے تاکہ دوسرے کشمیری نوجوان نشان عبرت بن سکیں۔ 06 نومبر1947 کے دلخراش واقعہ کی طرح بھارت مقبوضہ وادی میں انسانیت سوزمظالم ڈھاکرتحریک آزادی کشمیرکارخ موڑنے کی مذموم کارروائیاں کررہاہے۔جس نے گذشتہ78 سالوں سے تحریک آزادی کشمیرکاراستہ روکنے کاہرحربہ استعمال کرکے دیکھ لیا لیکن اسے اپنے مقاصدمیں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ آج بھی بھارتی افواج کی بربریت کانشانہ بننے والے کشمیریوں کو پاکستانی پرچم کے کفن میں دفن کیاجاتاہے اور اہل کشمیر دیوانہ وار جنازوں میں پاکستانی پرچم، اللہ اکبراور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کو ان کاپیدائشی حق خودارادیت دلانے کے لیے بھارت کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانیت کی درندگی کامکروچہرہ دنیاکے سامنے بے نقاب کیاجائے۔ اس سلسلہ میں بیرون ممالک سفارتکاری میں مسئلہ کشمیرکو ترجیح دی جائے، یورپ، امریکہ، برطانیہ کے ایوانوں سمیت اسلامی ممالک میں مسئلہ کشمیرکے سلسلہ میں بھرپور لابنگ کی جائے جبکہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں ڈھائے جانے والے مظالم کوسوشل میڈیا، ای میل، ٹیوٹر، فیس بک، واٹس اپ سمیت دیگر الیکٹرانک وپرنٹ میڈیاذرائع سے دنیاکوآگاہ کیاجائے تاکہ گزشتہ 78سالوں سے حق خودارادیت کے حصول میں لاکھوں کے حساب سے جانوں کی قربانی دینے والے کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خودارادیت مل سکے اور کشمیری 19 جولائی 1947کی قرارداد الحاق پاکستان کو پایا تکمیل تک پہنچا سکیں۔

Related Articles

Back to top button