27اکتوبر یوم سیاہ اور مسئلہ کشمیر

بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے نام نہاد الحاق کی دستاویز کو بنیاد بنا کر 27اکتوبر 1947ء اپنی افواج کشمیر میں داخل کرکے کشمیر کے بڑے حصے پر جابرانہ قبضہ کیا تھا۔ باؤنڈری کمیشن نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کے لئے گورداسپور اور پٹھانکوٹ کا مسلم اکثریتی علاقہ مہیا کرکے بہت بڑی نا اانصافی کی اگر یہ علاقہ بھارت کو نہ ملتا تو بھارت کو کشمیر میں داخلے کے لئے کوئی زمینی راستہ نہیں تھا باؤنڈری کمیشن کے غیر منصفانہ فیصلے کی وجہ سے نہ صرف مسئلہ کشمیر پیدا ہوا بلکہ نوزائیدہ پاکستان کے لئے نہریں، پانی اور مہاجرین کا مسئلہ وغیرہ جیسے سنگین مسائل پیدا ہوئے۔ برصغیر کی نیم خود مختار ریاستوں جو برائے راست برٹش انڈیا کے ماتحت نہ تھیں 03جون 1947ء تقسیم ہند کے اعلان میں گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ اعلان کیا تھا کہ ریاستوں کے حکمران اپنی رعایا کی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے کچھ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ سے زبردستی الحاق نامے پر دستخط کرائے گئے کچھ لکھتے ہیں جب ہری سنگھ نے قبائلیوں کے خلاف بھارتی فوج کشمیر بھیجنے کی درخواست کی توبھارت نے یہ شرط رکھی کہ پہلے الحاق پر دستخط کرو پھر بھارت فوج بھیجے گا اس پر مہاراجہ نے مجبور ہو کر دستخط کئے تاہم ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مہاراجہ کشمیر کو خود مختار رکھنا چاہتا تھا اور خود ریاست کا حکمران رہنے کا خواہشمند تھا بھارت نے کشمیر کی طرح ریاست حیدرآباد، دکن اور جونا گڑھ پر بھی جابرانہ قبضہ کیا دکن اور جونا گڑھ کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کی درخواست کی قائد اعظم نے منظور کر لی مگر بھارت نے زبردستی قبضہ کیا البتہ 1947ء میں ہم سے سنگین غلطی سرزد ہوئی کہ بھارت خواہشمند تھا کہ پاکستان حیدر آباد دکن سے دستبردار ہو جائے ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے یہ تجویز جب لیاقت علی خان کے سامنے رکھی گئی تو لیاقت علی خان نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ہم حیدرآباد دکن کے سرسبز و شاداب کھیت چھوڑ کر کشمیر کے پہاڑوں کو کیا کریں گے لیکن بعد میں نہ کشمیر کے پہاڑ اور نہ حیدرآباد دکن کے سرسبز و شاداب کھیت ملے 27اکتوبر ہر سال ہم یوم سیاہ بناتے ہیں ہم دن بنانے قراردادیں منظور کرنے اور جلسے جلوس کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں گزشتہ 77سال سے ہم یہی کچھ کر رہے ہیں جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ نہ صرف مضبوط کیا بلکہ اب تو 5اگست 2019ء کے بعد کشمیر بھارت کا آئینی حصہ ہے کشمیر کی متنازعہ حیثیت بھی بھارتی آئین سے ختم ہو گئی 27اکتوبر 1947ء جب بھارت نے اپنی باقاعدہ افواج کشمیر میں داخل کیں اگر پاکستان بھی بروقت اپنی افواج کشمیر میں داخل کر لیتا بروقت مجاہدین کشمیر کی مدد کی جاتی تو آج نقشہ کچھ اور ہوتا لائن آف کنٹرل چکوٹھی کے بجائے بارہمولہ سے آگے ہوتی پونچھ شہر ہمارے پاس ہوتا جموں کے علاقے تحصیل مینڈھر اور اوڑی ہمارے پاس ہوتے یہ تمام وسیع علاقے جو مجاہدین نے اپنا خون دے کر فتح کئے تھے واپس بھارتی قبضے میں چلے گئے مجاہدین کو بروقت نہ اسلحہ مل سکا نہ افرادی قوت تھی نہ راشن نہ موسم کی شدت سے بچنے کے لئے مناسب لباس تھا مجاہدین بے بس ہو کرپسپا ہوئے اسی دوران یکم جنوری 1948ء بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا اقوام متحدہ نے یکم جنوری 1949ء کشمیر میں جنگ بندی کرالی پھر اقوام متحدہ نے 13اگست 1948ء اور یکم جنوری 1949ء کشمیر میں رائے شماری کرانے کی قراردادیں منظور کیں پاک بھارت دونوں نے اس پر اتفاق کیا تاہم جلد ہی بھارت نے معاہدہ سیٹو اور سینٹو کو بہانہ بنا کر اور مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی قراردادوں کو بہانہ بنا کر کشمیر میں رائے شماری سے انکار کرکے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا فطری لحاظ سے اور ہر اعتبار سے کشمیر کا الحاق بھارت سے نہیں پاکستان سے بنتا ہے کشمیری مسلمانوں کی خواہش بھی یہی ہے بھارت سے الحاق کا غیر فطری فیصلہ ہے جسے کشمیری کبھی بھی قبول نہیں کریں گے اور نہ کشمیری کبھی کشمیر کی تقسیم کو قبول کریں گے ہم کشمیر کی وحدت چاہتے ہیں پاکستان کے حکمران اور سیاستدان کے ساتھ مقتدرہ قوتیں کشمیر پر یو ٹرن لے کر کبھی کشمیر کو تقسیم اور کبھی آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبے بنانے کی باتیں کرکے مسئلہ کشمیر کو کمزور کر رہی ہیں کشمیری مسلمان کشمیرکی مکمل آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اگر مسئلہ کشمیر منصفانہ طریقے سے حل نہ ہوا تو مسئلہ کشمیر پر خوفناک ایٹمی جنگ کے خدشات سو فیصد موجود ہیں اس لئے مسئلہ کی سنگینی کو سمجھ کر اسے حل کیا جائے 1989ء کے بعد ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو بیدردی سے شہید کر دیا گیا سینکڑوں گمنام مجاہدین کی قبریں دریافت ہو چکی ہیں 25ہزار خواتین بیوی ایک لاکھ دس ہزار بچے یتیم اور ایک لاکھ سے زائد گھروں کو جلایا گیا ہے معصوم بچے سے 90سالہ بوڑھے تک کو شہید کیا گیا ہے جوانوں کے چہروں کو مسخ کیا گیا ہے ہزاروں ہمیشہ کے لئے معذور کر دئیے گئے 86ہزار خواتین کی بیحرمتی اور عصمت دری کی گئی ان کے کیس عدالتوں میں زیرِ کار ہیں بھارتی ایک جنرل دوران پریس کانفرنس کہتا ہے کہ کشمیری عورتوں کی عصمت دری جنگی ہتھیار کے طور پر جائز ہے ملک یاسین سمیت ہزاروں بے گناہ کشمیری بھارت عقوبت خانوں میں ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں اس بے پناہ ظلم و بربریت کے باوجود آزادی کی تحریک جاری ہے اور جاری رہے گی آئے روز سرینگر کے علاقوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں بھارت نے 5اگست 2019ء اپنے آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کی متنازعہ حیثیت ہی ختم کر دی لاکھوں کی تعداد غیر کشمیریوں کو کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور ڈومیسائل کا حق دے کر کشمیر کی ڈیمو گرافی ہی تبدیل کر دی ہے وزیر اعظم مودی اور اس کا وزیر دفاع آئے روز پاکستان کو جنگ اور 7سے 10مئی 2025ء عبرتناک شکست کا بدلہ لینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں آزادکشمیر اور گلگت پر قبضہ کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں سندور2فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں سو فیصد جنگ کے خطرات موجود ہیں دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں مغربی اور مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہیں بھارت آزادکشمیر پر شب خون مارنے کی خواہش رکھتا ہے جو کبھی بھی پوری نہیں ہو گی اگر قوم متحد رہی تو بھارت کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا اندرون ملک خلفشار اور انتشار کے بجائے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے پاک فوج بہت ہی باصلاحیت ہے قوم ساتھ کھڑی ہے آزادکشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں دشمن نے ہماری نظریاتی سرحدوں کو کمزور کرنے کی کھلی سازش کی ہے ہمارے نوجوان دشمن کے عزائم کو سمجھ چکے ہیں اور اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کریں گے چونکہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ہمارے نوجوان آزادی کی قدر کرنا جانتے ہیں یوم سیاہ کے موقع پر عہد کرتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی اور ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں ہم ہر طرح کی قربانی دیں گے۔




