ڈاکٹر فاضل حسین صاحب ایک روشن علمی سفر کی داستان
تحریر:۔راجا گلزار احمد منگراللیکچرر گورنمنٹ ڈگری کالج بلگراں

علم، تحقیق اور خدمتِ انسانیت وہ خزانے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ ان کی وقعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آج مجھے یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ میں اپنے انتہائی محترم دوست، ہمدمِ دیرینہ اور مخلص ساتھی ڈاکٹر فاضل حسین صاحب کی علمی کامیابیوں پر یہ تاثرات قلم بند کر رہا ہوں۔ آج وہ لمحہ آیا جس کا انتظار برسوں سے تھا— ڈاکٹر صاحب نے پی ایچ ڈی اردو کا دفاع کامیابی سے مکمل کر لیا۔ یہ کامیابی ان کی زندگی کا ہی نہیں، ہمارے تعلیمی حلقے کا بھی روشن باب ہے۔میری ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات آج سے چھ سال قبل ڈگری کالج آٹھمقام میں ہوئی۔ میں نووارد تھا، ملازمت کو محض چھ دن ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی مجھ سے بھی چند دن بعد جوائننگ گرلز کالج میں ہوئی تھی، جبکہ میری ڈیوٹی بوائز کالج میں تاہم ہمارے درمیان ایک قدر مشترک تھی، رہائش کا کمرہ۔ ہم دونوں ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ یہی مشترکہ رہائش دراصل وہ دروازہ ثابت ہوئی جس سے ہماری دوستی نے جنم لیا۔رہتے رہتے ہم نے ایک دوسرے کی زندگیوں، سوچوں، حالات اور بچپن کی یادوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ جب ہم نے اپنے ماضی کے دریچے کھولے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہماری شخصیات میں ایک مشترکہ پہلو بڑی شدت سے موجود ہے: احساسِ محرومی۔ یہ وہ احساس تھا جس نے ہمیں نہ صرف قریب کیا بلکہ ایک دوسرے کے دکھ درد اور جذبات کو سمجھنے کا سلیقہ بھی دیا۔وقت گزرتا گیا، حالات بدلتے گئے، مگر تعلق مضبوط تر ہوتا گیا۔کچھ ہی عرصے بعد ڈاکٹر فاضل صاحب کا تبادلہ اپنے گھر کے بالکل پڑوس میں قائم ڈگری کالج بلگراں میں ہوگیا۔ چند ماہ بعد میرا بھی تبادلہ ڈگری کالج دھیرکوٹ میں ہوگیا۔ منصب اور مقام بدل گئے، مگر محبت، خلوص اور رابطہ برقرار رہا۔یہ تعلق صرف جذباتی نہیں تھا، بلکہ ایک دوسرے کی علمی کیفیت اور پیشہ ورانہ ترقی کی حوصلہ افزائی پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے مصروف اوقات میں بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نکالتے رہے۔انہی دنوں ڈاکٹر صاحب نے الحمد اسلامک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اردو میں داخلہ لیا۔ تدریسی ذمہ داریاں، گھریلو مصروفیات اور تحقیقی سفر کا آغاز یہ سب ایسی آزمائشیں تھیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب عزم اور حوصلے کے پیکر تھے۔انہوں نے محنتِ شاقہ اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنا مقالہ تحریر کیا۔ جس کا موضوع ”معاصر اردو ناول:مابعد جدید مطالعہ تھا“ان کا موضوع نہایت اہم اور ادبی تحقیق کے اعلیٰ معیار کا حامل تھا۔ یہ عمل کئی مراحل سے گزرا، جس میں تنقید، جائزہ، تصحیح اور بہتری سب شامل تھے۔ڈاکٹر صاحب کا مقالہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق بھی جانچا گیا۔ یہ ان کی تحقیق کے اعلیٰ معیار کا بین ثبوت ہے۔ ان کے مقالے کی جانچ کے لیے بھارت کے نامور محققین اور اساتذہ کو شامل کیا گیا:بین الاقوامی ممتحنین1۔پروفیسر محمد محفوظ (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)2۔پروفیسر مسرت جبیں (کشمیر یونیورسٹی، سرینگر)ملکی (نیشنل) ممتحنین1۔ڈاکٹر نعیم مظہر (نمل یونیورسٹی، اسلام آباد)2۔ڈاکٹر سعدیہ طاہر (فیڈرل اردو یونیورسٹی، اسلام آباد)نگرانِ مقالہ،ڈاکٹر شیر علی (صدر شعبہ اردو، الحمد اسلامک یونیورسٹی)تھے۔یہ سب نام اپنی اپنی جگہ تحقیق کے مینار ہیں۔ ان سب حضرات نے ڈاکٹر صاحب کی تحقیق،
محنت، اسلوبِ نگارش اور علمی بصیرت کی بے حد تعریف کی۔ یہ تعریف محض لفظوں تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کے چہرے کے تاثر اور گفتگو کے انداز سے بھی ظاہر تھی کہ انہوں نے ایک پختہ، معیاری اور سنجیدہ محقق کے کام کا جائزہ لیا ہے۔آج کے روز مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دفاع میں ”بنفسِ نفیس” موجود تھا۔ جب ممتحنین نے ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کا ذکر کیا، سوالات کیے، تعریف کی اور اطمینان کا اظہار کیا تو دل خوشی سے بھر گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ کامیابی صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ ان کیخاندان، ادارے اور تمام دوستوں کی کامیابی ہے۔ڈاکٹر فاضل صاحب کا یہ سفر یہاں ختم نہیں ہوتا۔ یہ تو کامیابیوں کی ایک روشن شاہراہ کا پہلا قدم ہے۔ ان کا عزم، محنت اور علم دوستی ہمیں یقین دلاتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اعلیٰ علمی منازل اور مراتب طے کریں گے۔ان کی تمام تر کامیابیاں میرے لیے ان کے خاندان اور تمام خیر خواہوں کے لیے ان شائاللہ باعث فخر ثابت ہوں گی۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید علم، وقار، ترقی اور قبولیت عطا فرمائے۔




