کالمز

بھمبر کنونشن: سردار عتیق احمد کا دو ٹوک نظریاتی اعلان

تحریر:میمونہ کیانی ایڈووکیٹ

بھمبر کی سرزمین ایک بار پھر تاریخ کے ایک اہم موڑ کی گواہ بنی، جہاں“کشمیر بنے گا پاکستان ورکرز کنونشن” کے موقع پر صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان نے ایسا خطاب کیا جو محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ کشمیری قوم کے نظریاتی عزم، تاریخی تسلسل اور غیر متزلزل موقف کی بھرپور ترجمانی تھا۔یہ کنونشن 25 دسمبر، بانی? پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یومِ پیدائش کے موقع پر منعقد ہوا۔ صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان نے اپنے خطاب میں قائد اعظمؒ کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس تاریخی حقیقت کو اجاگر کیا کہ قائد اعظمؒ نے برصغیر کی 562 ریاستوں میں سے 561 ریاستوں میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، جبکہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس کو ہی مسلم لیگ کی نمائندہ جماعت تسلیم کیا اور رئیس الاحرار، قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ کو اپنا سیاسی جانشین قرار دیا۔ یہ محض تاریخ کا حوالہ نہیں بلکہ آج کی سیاست کے لیے ایک واضح نظریاتی بنیاد بھی ہے۔صدر مسلم کانفرنس نے اپنے خطاب میں مجاہدِ اول سردار محمد عبد القیوم خانؒ کے اس تاریخی انتباہ کو بھی یاد دلایا جو انہوں نے دہائیاں قبل دیا تھا کہ” جب کبھی مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانا مقصود ہو اور تحریکِ آزادی کشمیر کو پسِ پشت ڈالنا ہو تو سب سے پہلے آزاد کشمیر کو غیر مستحکم کیا جائے گا۔” آج کے حالات اس پیش گوئی کی واضح تصویر بن چکے ہیں۔سردار عتیق احمد خان نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ مسلم کانفرنس شملہ معاہدے کو تسلیم نہیں کرتی، جس کے تحت سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن قرار دے کر ریاست جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے مطابق اسی معاہدے کے بعد ریاست کے دونوں حصوں میں غیر ریاستی اور غیر نظریاتی جماعتوں کی راہ ہموار ہوئی، جس سے تحریکِ آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچا۔خطاب کا سب سے مضبوط اور فیصلہ کن پہلو کشمیر کی داخلی خودمختاری پر غیر متزلزل موقف تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیری عوام کی سیاسی، انتظامی اور آئینی خودمختاری مسلم کانفرنس کی جدوجہد کی بنیاد ہے، اور اس بنیاد پر کسی بھی قسم کا کمپرومائز ناقابلِ قبول ہے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر بات کرتے ہوئے سردار عتیق احمد خان نے خبردار کیا کہ اگر ان علاقوں کی موجودہ آئینی حیثیت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی گئی یا انہیں کسی مستقل آئینی ڈھانچے میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا سب سے بڑا نقصان ریاست جموں و کشمیر کے حقِ استصوابِ رائے کو پہنچے گا، اور عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ کمزور ہو جائے انہوں نے نہایت مدلل انداز میں واضح کیا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی مسئلہ کشمیر کے حل کا واحد قانونی اور اخلاقی راستہ ہیں۔ انہی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور انہی کی روشنی میں استصوابِ رائے کشمیری عوام کا بنیادی حق ہے۔ اگر ریاست کی متنازع حیثیت کو خود کمزور کیا گیا تو دنیا کے سامنے کشمیر کا مقدمہ خود ہمارے ہاتھوں سے کمزور پڑ جائے گا۔یہ خطاب اس حقیقت کا عملی ثبوت تھا کہ سردار عتیق احمد خان محض ایک سیاسی لیڈر نہیں بلکہ ایک نظریاتی رہنما ہیں، جو وقتی سیاسی فوائد کے بجائے قومی مفاد اور اصولوں کو مقدم رکھتے ہیں۔ انہوں نے کشمیری عوام کو پورے اعتماد کے ساتھ یقین دلایا کہ نہ نظریہ بدلا جائے گا، نہ حقِ خودارادیت پر سودا ہو گا اور نہ ہی کشمیر کی پہچان اور تشخص قربان کیا جائے گا۔بھمبر کنونشن نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ“کشمیر بنے گا پاکستان”محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک تاریخی وعدہ، ایک نظریہ اور ایک مسلسل جدوجہد ہے جو دلیل، قربانی اور استقامت کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔یہ خطاب آنے والی نسلوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ کشمیر کی آزادی کا فیصلہ صرف کشمیری عوام کریں گے، اور وہ فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو گا۔

Related Articles

Back to top button