کالمز

پی آئی اے”گِریہ چاہے ہے خرابی میرے کاشانے کی“

پاکستان کی قومی شناخت کا حامل ادارہ اس کا فضائی سفیر پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز بھی آخر کار نیلام ہو گیا۔اچھا ہوا کہ گھر کی بات گھر میں رہی اور کوئی غیر ملکی ہماری قومی ائر لائن کو نہیں لے اُڑا۔پی آئی اے کی نیلامی کی خبروں میں اسی کی دہائی میں ہاکی میچ کی کمنٹری کے سنے گئے الفاظ ایک بار پھر یوں کانوں میں گونجنے لگے ”گیندسلیم اللہ سے کلیم اللہ کے پا س اور کلیم اللہ سے واپس سلیم اللہ کے پاس“۔یقین نہ آئے تو نجم سیٹھی کا یہ تبصرہ اس کی گواہی دیتا ہے ”پچھلے سال پی آئی اے کی دس ارب کی بولی لگی تو شور پڑگیا حکومت نے سوچا کہ اسے کیسے سپن کریں۔اب ایک سو پینتیس ارب ہوگیا جو دس ارب ہی ہے۔انہوں نے کہا ہم آپ کو دیتے ہیں آپ واپس ہمیں دے دینا بس لگے ایسے کہ ایک سو پینتیس ارب میں بیچی ہے۔تو یہ فارمولہ ڈھونڈا گیا۔ایسا اس لئے کرنا پڑا کیونکہ پی آئی اے کو کوئی خریدنے کو تیار نہیں تھا“۔قومی اثاثے کی نیلامی کے لئے کمال مہارت سے ریاضی کا ایک نیا کلیہ ایجاد کردیا گیا۔یہ صلاحیتیں یہ ذہانتیں اور یہ مہارتیں اگر پاکستان میں ادارے بنانے کے لئے استعمال ہوتیں تو آج کم ازکم اس حد تک خانہ خرابی نہ ہوتی۔پی آئی اے کی نیلامی کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔یہ الگ بات کہ اس قومی ادارے کے ساتھ کئی نسلوں کی یادیں کسی نہ کسی انداز سے وابستہ ہیں۔ ہمارابچپن اور لڑکپن اُردو ڈائجسٹ میں مستقل نوعیت کے اشتہار کو ہر ماہ دیکھتے گزر اجس کا ماٹو ”لاجواب سروس باکمال لوگ“ ہوتا تھا۔ہم نے اس کی لاجوابی کا زمانہ تو بس اشتہاروں میں دیکھا جب پہلے ہوائی سفر میں پی آئی اے سے واسطہ پڑا تو اس میں سیاسی بھرتیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔زوال کا جرثومہ ادارے میں گھر کر چکا تھا مگر خرابی بے قابو نہیں ہوئی تھی۔پاکستان کے چھوٹے شہروں میں پی آئی اے کے اثاثے نئے ائر پورٹس کی صورت میں بن رہے تھے۔یوں پی آئی اے کا دائرہ پھیل رہا تھا۔ ملک کے دوسرے چھوٹے شہروں کی طرح آزادکشمیر کے پہاڑی علاقوں مظفرآباد اور راولاکوٹ میں چھوٹے ائرپورٹس بن رہے تھے اور فضائی رکشہ نما جہاز جھومتے اور جھولتے ہوئے پہاڑوں سے بچتے بچاتے اُڑ تے چلے جا رہے تھے۔پی آئی اے کی کارگو سروس بھی عروج پر تھی۔پہلاہوائی سفر مظفرآباد سے راولپنڈی کا ہوا۔چار گھنٹے کا سفر آدھ گھنٹے میں طے ہونا ایک بڑی سہولت تھی۔ڈاک کے سست رفتار نظام میں کارگو سروس بھی ایک نعمت سے کم نہیں تھی۔انیس سو نوے میں روزنامہ جسارت سے وابستہ ہوا تو پی آئی اے سے قربت بھی بڑھتی چلی گئی۔جناب محمود احمد مدنی ایڈیٹر اور جناب شاہد ہاشمی منتظم اعلیٰ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔دونوں کی سرپرستی میں جسارت نے اپنے کارکنوں اور نئے لوگوں کے ناز نخرے اُٹھانے کی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ کمال محبت سے آگے بھی بڑھایا۔شایدیہی شفقت اس شعبے سے مستقل تعلق کے قیام کی بنیاد بنی۔ایک دن شاہد ہاشمی صاحب نے سٹاف میٹنگ کے لئے کراچی طلب کیا۔جسارت کی طرف سے ٹکٹ بھی ملااور دفتر سے پی آئی اے کارڈ بھی بنو ا کر دیا گیا جس سے فضائی سفر کا کرایہ نصف ہوگیا۔پی آئی اے اخبارات کی ایک اہم بیٹ ہوا کرتی تھی اور جیو نیوز کے سینئر رپورٹر طارق ابوالحسن ان دنوں پی آئی اے کور کرتے تھے۔سو ہر سال ہم اپنا کارڈ دفتر بھیجتے اور طارق ابوالحسن کے ذریعے تجدید ہوا کر ہمیں واپس ملتا۔ہم کسی کو بتاتے کہ ہمیں تو پی آئی اے کے ذریعے آدھے کرایے کی سہولت حاصل ہے تو اکثر لوگ حیرت زدہ ہوجاتے۔اسی طرح جسارت کی ڈاک جن میں چیکس وغیرہ بھی ہوتے پی آئی اے کارگو سروس کے ذریعے ملتے۔پھر پی آئی اے کا زوال بڑھتا گیا اور یہ سب باتیں خواب وخیال ہو کر رہ گئیں۔پی آئی اے کے عالمی سفر میں بھی وہ مزہ نہ رہا جو کبھی مظفرآباد سے راولپنڈی کے اُڑن کھٹولا میں آیا کرتا تھا یا جو اسلام آباد سے کراچی کے پہلے سفر میں محسوس کیا تھا۔نوے کی دہائی میں زوال کی لہریں تنہا پی آئی اے کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے چکی تھی بلکہ پاکستان سٹیل مل جیسا بے مثال پروجیکٹ بھی ان لہروں کی زد میں آچکا تھا۔کراچی کے ایک مطالعاتی دورے میں سندھ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے کراچی شپ یارڈ اور کئی مقامات کے ساتھ ساتھ سٹیل مل کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔وسیع وعریض رقبہ،بہترین عمارتیں،سریا بننے کا دل دہلا دینے والا منظر،ہزاروں افراد اپنے کام میں جُتے ہوئے کیا خوب منظر تھا۔اس بھی زیادہ ایک مسحور کن احساس تھا کہ پاکستان کے ادارے کام کر رہے ہیں۔پاکستان آگے جا رہا ہے موجود ہ مروج اصطلاح کے مطابق اُوپر جا رہا ہے۔پھر زندگی سے بھرپور اس ڈائینو سار کو کسی نظر لگ گئی اور یہ نحیف ونزار ہو کر مرگیا۔کوئی ایک کہانی ہو تو بیان کریں؟کس کس ادارے کا نوحہ پڑھا جائے؟ مرزاغالب کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے۔
گِریہ چاہے ہے خرابی میرے کاشانے کی
دورو دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا۔
یہ جو زوال پاکستان کو گھیرے ہوئے ہے ہمہ جہتی ہے۔کھیل کے میدانوں کی اپنی ہی کہانیاں ہیں۔کرکٹ اور ہاکی کا زوال تو نمایاں ہے کہ یہ کھیل عوامی دلچسپی سے بھرپور ہوتے تھے۔کرکٹ کا حال یہ ہے کہ عمران خان کو مائنس کرنے کے شوق میں ہمارابس نہیں چلتا کہ ہم ورلڈ کپ کا اعزاز بھی انٹرنیشنل کرکٹ کلب کو واپس کرکے یہ کہانی ہی تاریخ سے حذف کر دیتے۔سکوائش ایک مخصوص طبقے کا کھیل تھا مگر اس میں بھی پاکستان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ایک بعد دوسرا عالمی چیمپئن پاکستان سے اُبھرتا۔جہانگیر خان ایسے ہی قومی ہیرو ہیں جو ایک مدت تک سکوائش کی دنیا میں پاکستان کی پہچان رہے۔ان کا نیا وڈیو کلپ ان دنوں محوگردش ہے جس میں وہ کہتے ہیں سکوائش کی سربراہی ونگ کمانڈرز اورایسے لوگوں کو سونپی گئی جنہوں نے کبھی ریکٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔تو اس حکمت عملی کے ساتھ سکوائش نے زوال پزپر ہی ہونا تھا۔کتنی اذیت ناک کہانیاں پاکستان میں اداروں کے زوال کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہیں۔اس زوال کی وجہ سے یہ بات نوشتہئ دیوار ہے کہ پاکستان میں گورننس کا اٹھہتر سالہ ماڈل ناکام ہوچکا ہے۔ اس ماڈل کا خلاصہ امریکی مصنف ڈینئیل مارکی کی کتاب”نوایگزٹ فرام پاکستان“ میں یوں بیان کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کو رینگنے کی آزادی تو ہوگی مگر پر لگاکر اُڑنے کی اجازت نہیں ہوگی“۔ حکمرانی کا یہ ماڈل قیامت تک باقی رہنے والے پاکستان کے بڑے حصے مشرقی پاکستان کو کھاچکا ہے۔یہ ماڈل پاکستان کے اداروں کو ہڑپ کر چکا ہے۔یہ ماڈل اگلی چار پانچ نسلوں کو عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض بنا چکا ہے۔وہ جو بے چارے ابھی اس دنیا میں آئے ہی نہیں وہ بھی مقروض پیدا ہوں گے۔اس ناکام ماڈل کی تصویر یہ ہے کہ پاکستان عالمی اسٹیبشلمنٹ کی خصوصی نظر عنایت کا مستقل نشانہ ہے۔عالمی مہربان خطے کے لئے اپنے ایجنڈے کو مقامی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔اسی لئے انہیں پاکستان میں عوامی اور حقیقی جمہوریت قبول نہیں رہی۔وہ اس اکٹھ میں نشان زدہ سیاست دانوں کی پیوند کاری کرتے ہیں۔تیسرے اور کمزور شراکت دار کے طور پر۔ماضی میں یہ کام ان سیاست دانوں سے لیا جاتا تھا جنہیں انگریز نے انعام کے طور جائیدادیں دے کر جاگیرد ار بنادیا تھا۔ظاہرہے ان کی نسلیں اس سوچ کی احسان امند اور اسیر تھیں۔جاگیرداری کا سورج غروب ہونے کے بعد یہ کام سرمایہ دار سیاست دانوں سے لیا جانے لگا جن کی دولت مغربی ملکوں میں آفشور کمپنیوں کے ذریعے بینک اکاونٹس اور کارباری عمارتوں کی صورت میں موجود ہے۔مغربی ملکوں میں پوشیدہ دولت کے انبار ان کی کمزور ی بن چکی ہے اور وہ سسٹم میں سیاسی پیوند کاری کا کام انجام دینے پر مجبور ہیں۔تنوع قدرت کا اصول ہے۔صرف ایک ادارہ کھپے باقی کوئی نہ کھپے کی سوچ صحت مندانہ نہیں۔ہر ادارہ کھپے گا تو ملک کھپے گا بھی اور اس کی تصویر بھی مکمل ہوگی۔وگرنہ تو جلیل عالی والی بات ہوگئی ناں پھر۔
اپنے دیے کو چاند بنانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button