ریاست شخصیات سے نہیں،نظام سے چلتی ہے

خوش آمد اور چاپلوسی بظاہر نرم گفتاری اور شائستگی کا روپ دھارے ہوتی ہیں، حقیقت میں یہ منافقت کی ایسی شکلیں ہیں جو افراد،معاشرے اور، اداروں کے اعتماد کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔چاپلوس لوگ وقتی مفاد کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے رویے نہ صرف دیانت داری کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ حق گوئی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔دفاتر، سیاست اور سماجی حلقوں میں چاپلوسی کرنے والے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو ذاتی فائدے یا عہدے کی خاطر دوسروں کو خوش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں اہلِ کردار اور اہلِ محنت افراد پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں، جبکہ نظام نااہل اور مفاد پرست افراد کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔یہ رویہ صرف افراد نہیں، پوری قوم کے اخلاقی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔ خوش آمد اور منافقت وقتی فائدہ تو دیتی سکتی ہیں پرطویل مدت میں اعتماد، سچائی اور انصاف جیسے اقدار کو ختم کر دیتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سچائی اور اصول پسندی کو فروغ دیں، تاکہ معاشرہ خوش آمد پر نہیں، بلکہ کردار اور صلاحیت پر قائم ہو۔خوش آمدی لوگ آپ کوہمیشہ یہی احساس دلاتے ہیں کہ آپ جیساکوئی نہیں،جوخوبیاں آپ میں ہیں کسی دوسرے میں ہوہی نہیں سکتی،آپ سے بہترتوکوئی ہوہی نہیں سکتاہے،آپ نہیں توکچھ بھی نہیں،آپ کااختیاراورطاقت بے مثال اورلازوال ہیں۔سچ تویہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے علاوہ ہرچیزکوزوال پزیرہونا ہے۔اللہ تعالیٰ کی حکومت ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے باقی سب اقتدار،اختیاراورطاقتیں عارضی ہیں۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ میں یہ المیہ سب سے نمایاں اوریکساں دکھائی دیتا ہے کہ اقتدار کی ہوس ہردورمیں جمہوریت کے چہرے کوداغدارکرتی آئی ہے۔ ہمارے سیاست دان، جو خود کو جمہوریت کے ٹھیکیدار اور عوامی نمائندے قرار دیتے نہیں تھکتے، ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں میں اصولوں کا سودا کرتے نظر آئے ہیں۔ہردورمیں جمہورکے ووٹ کی طاقت کی بجائے طاقتورفوجی عہدیدداروں کی ہاں میں ہاں ملاکرایوان اقتدارمیں پہنچنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ان کے بیانات، وفاداریاں اور نظریات ہمیشہ بدلتے موسموں کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ ضیاء الحق کے قدموں میں بیٹھ کر آمریت کو،اسلامی نظام، کا نام دیتے رہے، تو کبھی جنرل پرویز مشرف کو سومرتبہ،باوردی صدر، بنانے کے لیے پارلیمان میں تالیاں بجاتے دکھائی دیے۔ یہ وہی سیاست دان ہیں جو ہر دور کے طاقتور کے ساتھ کھڑے ہوکر جمہوریت کا خون کرتے رہے ہیں۔ اپنے مفاد کو ملک و قوم کے استحکام کا نام دیتے رہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کی راہداریوں میں اکثر وہی لوگ کامیاب ٹھہرے جنہوں نے اصولوں کے بجائے موقع پرستی اورخوش آمد کو اپنایا۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق،جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران کے عہد میں ان ہی سیاست دانوں نے چاپلوسی، موقع پرستی اور وقتی مفاد کو ترجیح دی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کی ہوا جہاں بھی چلتی دیکھتا ہے، وہیں کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی،تسلسلِ جمہوریت، کے نام پر فوجی مداخلت کو جائز قرار دیتا ہے، تو کبھی قومی مفاد کے نام پر اپنی وفاداریاں بدل لیتا ہے۔
راقم کا کسی سیاسی جماعت یا رہنما سے کوئی ذاتی تعلق یا وابستگی نہیں۔ محب وطن پاکستانی شہری ہونے کے ناتے یہ حق رکھتا ہوں کہ ملکی استحکام اور ادارہ جاتی مضبوطی کے لیے اپنی رائے کا اظہار کروں۔ میری ترجیح ہمیشہ ریاست رہی ہے، شخصیات نہیں۔ میری پسندیدگی کا مرکز ہمیشہ پاک فوج رہی ہے، اور اس کے تمام سربراہان میں سے کسی نے واقعی دل میں جگہ بنائی ہے تو وہ موجودہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر ہیں۔ان کی پیشہ ورانہ اہلیت،دیانت داری،اصول پسندی اور دین سے وابستگی انہیں ممتاز کرتی ہے۔ فیلڈمارشل وہ سپاہ سالار ہیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں قوم کو حوصلہ دیا، دشمن کو واضح پیغام دیا، اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ فوج صرف بندوق نہیں، نظریہ بھی رکھتی ہے۔جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف نئی حکمت عملی اپنائی بلکہ ملکی سرحدوں کے دفاع کو ایک منظم اور جدید انداز میں استوار کیا۔ ان کی شخصیت میں عزم، فراست، اور تدبر کا امتزاج ہے۔ وہ ایک ایسے سپاہی ہیں جو وردی میں رہتے ہوئے اللہ پر بھروسہ، انصاف پر یقین، اور ادارے کی بالادستی پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو کسی بھی فوجی رہنما کو عوام کے دلوں میں جگہ دلاتی ہیں۔تاہم، تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ جب کسی فرد کو ادارے سے بڑا بنا دیا جائے تو ادارے کمزور ہونے لگتے ہیں۔ماضی میں بھی یہی ہوا۔جنرل ایوب خان کے دور میں،ترقی، کے نام پر ادارے کمزور کیے گئے، جنرل ضیاء کے دور میں،،اسلامی نظام،، کے نام پر آئین کو معطل کیا گیا، اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں،ترقی یافتہ پاکستان،کا نعرہ لگا کر جمہوری عمل کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ہر دور میں سیاست دانوں نے اس کھیل میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہی سیاست دان جو آج جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں، کل انہی آمروں کے قصیدے پڑھتے تھے۔ کسی نے ضیاء الحق کو،مردِ مومن، مردِ حق، کہا، کسی نے جنرل پرویزمشرف کو،محسن پاکستان، قرار
دیا۔اب جب فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے اختیارات اور مراعات میں 27ویں ترمیم کے تحت اضافہ کیا جارہاہے تو ایک بار پھر یہی خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ کہیں تاریخ خود کو دہرانے نہ لگے۔ جنرل عاصم منیر اپنی ذات میں بے مثال سپاہ سالار ہیں، انہیں خوشامدیوں کے نرغے سے بچنا ہوگا۔ تاریخ کے ہر موڑ پر یہی چاپلوس طبقات فوجی قیادت کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔آج بھی وہی طبقہ موجود ہے جو اقتدار کے قریب رہنے کے لیے ہر لباس پہن لیتا ہے۔کبھی سیاست دان بن کر، کبھی مشیربن کر۔پاکستان کے اداروں کی مضبوطی اسی وقت ممکن ہے جب شخصیات کے بجائے اصولوں کو فوقیت دی جائے۔ جنرل سید عاصم منیر جیسے محب وطن رہنما کو بھی اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ طاقت کا دوام کسی ایک فرد میں نہیں بلکہ ادارے کے نظام میں پوشیدہ ہے۔ افواج پاکستان کو ادارے کے طور پر مضبوط کیا جائے، پیشہ ورانہ تسلسل قائم رکھا جائے، اور پالیسی کو فرد کی بجائے ادارہ بنائے، تو یہی اصل استحکام ہوگا۔ایک فرد کے اختیارات وقتی ہوتے ہیں۔ آج جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل ہیں، کل کوئی اور ہوگا۔ آج جو حکمران اقتدار میں ہیں، کل ان کی جگہ نئے چہرے ہوں گے۔ ادارے مضبوط ہوں تو نہ قیادت کی تبدیلی نقصان دیتی ہے، نہ پالیسی کا تسلسل ٹوٹتا ہے۔ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ہر آرمی چیف کے جانے کے بعد نیا چیف اپنی حکمتِ عملی لے کر آتا ہے اور، ادارہ ایک نئے رخ پر چل نکلتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قومی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔اس وقت پاکستان کو شخصیات نہیں، ادارہ جاتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے تجربے اور بصیرت کو افواجِ پاکستان کی پالیسیوں کا مستقل حصہ بنانا چاہیے تاکہ آنے والی قیادت اس تسلسل کو برقرار رکھ سکے۔ اس سے نہ صرف فوج مضبوط ہوگی بلکہ ریاستی نظام بھی مستحکم ہوگا۔جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے، ان کی اقتدار کی سیاست اب عوام پر آشکار ہوچکی ہے۔ وہ جمہوریت کے نام پر صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ان کے نزدیک عوام صرف ووٹ دینے والے ہاتھ ہیں،قوم نہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کے لیے کبھی وردی والوں سے مصافحہ کرتا ہے اور کبھی عوام کے جذبات سے کھیلتا ہے۔ ان کے کردار کی کمزوری ہی ریاستی اداروں کو غیر متوازن کرتی ہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کے دفاعی استحکام میں فوج کا کردار بنیادی ہے پریہ بھی حقیقت ہے کہ فوج کا وقار اس وقت مزید بلند ہوگا جب سیاست دان اپنی ذمہ داری نبھائیں گے اور ریاست کو ذاتی مفاد کی بجائے قومی نظریے کے تحت چلائیں گے۔ جنرل سید عاصم منیر جیسے بااصول رہنما سے قوم کو یہی امید ہے کہ وہ نہ صرف فوج کو مضبوط کریں گے بلکہ قوم کو یہ احساس دلائیں گے کہ اصل طاقت آئین، اداروں اور انصاف میں ہے، کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں۔
اقتدار کے طلبگار سیاست دانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وہ ہر دور میں آمریت کا سہارا لیتے رہے جس کا انجام اقتدارکے فوری بعد ہمیشہ شرمندگی اور ناکامی رہا۔ ریاستوں کی بنیادیں شخصیات سے نہیں، اداروں سے قائم رہتی ہیں۔آج ہم اداروں کو مضبوط کریں، فوجی و سیاسی قیادت اپنی حدود میں رہ کر ملک کے لیے کام کرے، تو پاکستان وہ منزل حاصل کر سکتا ہے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔یہ وقت ایک نئے عزم، نئی سوچ اور مضبوط اداروں کے قیام کا متقاضی ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی قیادت اس سمت میں ایک موقع ہے۔ بشرطِ یہ کہ خوشامدیوں کے نرغے سے بچا جائے، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے، اور شخصیات کے بجائے اصولوں کو مقدم رکھا جائے۔ تب ہی پاکستان کی سرزمین محفوظ، خوددار اور مستحکم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر روشن رہے گی۔



