ریاست جموں و کشمیر — یومِ تاسیس، یومِ الحاق اور ایک غیر مکمل تاریخ

اکتوبر 1947—یہ مہینہ محض کیلنڈر کی تاریخ نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی تقدیر کا وہ موڑ ہے جہاں سے اس خطے کی تاریخ، جغرافیہ، سیاست اور شناخت سب کچھ بدل گیا۔ اسی مہینے میں ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوئی، ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام ”آزاد کشمیر“ کہلایا، دوسرا ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ خون آشام فسادات، الحاق کے متنازع فیصلے اور عالمی سطح پر ریاست کے مستقبل کے جھگڑے نے اسے ایک مستقل تنازع بنا دیا۔
تقسیم ہند اور ریاستوں کی آزادی کا مفہوم: 14 اور 15 اگست 1947 کو جب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوئے، تو برطانوی ہند کی تمام ریاستوں کے ساتھ موجود معاہدے ختم کر دیے گئے۔ راجے اور مہاراجے داخلی طور آزاد ہو گئے، مگر اُنہیں مکمل آزادی نہیں بلکہ یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جغرافیائی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں۔
قانون کے مطابق ہندو اکثریتی ریاستیں ہندوستان اور مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی ذمہ دار تھیں۔ مگر فیصلہ حکمران کو دیا گیا، عوام کو نہیں۔ کانگرس کا مؤقف تھا کہ فیصلہ رعایا کرے، جبکہ مسلم لیگ حکمران کے فیصلے کو حتمی سمجھتی تھی۔ میرے نزدیک کانگرس کا مؤقف جمہوری تھا، لیکن قانون مسلم لیگ کے موقف کے مطابق بنا۔
کشمیر—نہ پاکستان سے الحاق، نہ آزادی کا اعلان: ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی مگر ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست تھی۔ مہاراجہ نے نہ پاکستان سے الحاق کیا اور نہ ہی مکمل آزادی کا راستہ اختیار کیا۔ جبکہ ریاست کا تمام جغرافیائی راستہ پاکستان سے منسلک تھا۔ یہ تذبذب کشمیریوں کے اضطراب کا سبب بن گیا۔
19 جولائی 1947 کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی۔ مگر مہاراجہ نے اسے دبانے کے لیے فوجی جبر جاری رکھا۔ حالات اس نہج تک پہنچے کہ اکتوبر میں ریاست کے مسلمان سابق فوجیوں، مقامی افراد اور قبائلی مجاہدین نے ڈوگرہ فوج کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔
24 اکتوبر—آزاد کشمیر کی حکومت کا قیام: 22 سے 24 اکتوبر 1947 تک مظفرآباد، پونچھ، میرپور اور گلگت بلتستان کے کئی علاقوں سے ڈوگرہ فوج کو نکال کر 24 اکتوبر کو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں آزاد حکومت قائم ہوئی۔ یہی دن آج ”یومِ تاسیسِ آزاد کشمیر“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مہاراجہ کا الحاقِ ہندوستان—حقیقت یا مجبوری؟ مجاہدین کے بڑھتے ہوئے اثر سے خوفزدہ ہو کر مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور 27 اکتوبر کو بھارتی فوج سرینگر ایئرپورٹ پر اتری۔
یہ کہنا کہ الحاق صرف قبائلی حملے کا ردعمل تھا، تاریخ اور فوجی شواہد سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ سکھ ریاستوں کے فوجی دستے پہلے ہی کشمیر پہنچ چکے تھے۔
جموں کا قتلِ عام اور اقوامِ متحدہ کا دروازہ: اکتوبر تا نومبر 1947 میں جموں کے لاکھوں مسلمان ریاستی سرپرستی میں قتل کیے گئے، ہزاروں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ کشمیر میں ہندو اور سکھ متاثر ہوئے۔
1948 میں یہی مسئلہ ہندوستان کی درخواست پر سلامتی کونسل میں پہنچا جہاں رائے شماری کی قراردادیں منظور ہوئیں، مگر آج تک نافذ نہ ہو سکیں۔
آرٹیکل 370 سے 5 اگست 2019 تک کا سفر: الحاق نامہ کے تحت ہندوستان کو صرف دفاع، خارجہ، مواصلات اور کرنسی تک محدود اختیار دیا گیا تھا اور آئینِ ہند کی دفعہ 370 اس کی ضمانت تھی۔
لیکن 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر دفعہ 370 منسوخ کر کے ریاست کو دو حصوں —جموں و کشمیر اور لداخ—میں تقسیم کر دیا۔ ریاستی آئین اور خصوصی درجہ ختم کر دیا گیا۔
آزاد کشمیر، گلگت بلتستان—آئینی شناخت کا المیہ: دوسری طرف 24 اکتوبر 1947 کی آزاد حکومت اگرچہ قائم ہے، مگر 1949 کے کراچی معاہدے کے تحت دفاع، خارجہ اور مواصلات پاکستان کے سپرد کیے گئے۔
گلگت بلتستان کے حکمرانوں نے تحریری طور پر الحاق نامے دئیے، مگر انہیں آج تک آئینی صوبائی حیثیت نہیں ملی۔
نہ یہ مکمل طور پاکستان کا حصہ ہیں، نہ واقعی آزاد۔ یہ ایک آئینی خلا (Constitutional & Democratic Deficit) ہے، جو عوامی بے چینی اور سیاسی تحریکوں کو جنم دیتا ہے۔
کیا یہ سفر مزید 77 سال ایسے ہی چلے گا؟: اگر انجام بالآخر ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہی ہے، تو کم از کم ان شعبوں —دفاع، خارجہ، کرنسی، مواصلات—جن پر عمل دراصل پاکستان کر رہا ہے، ان میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی نمائندگی دی جائے۔ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے نے جذبات تو گرمایا، لیکن لوگوں کو عملی آئینی حق اور خودمختاری نہیں دی۔
عوامی ایکشن کمیٹی اور آزاد کشمیر کا نظام: عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے اس ریاست اور اس کے نظام کے کھو کھلا ہونے کو واضع کردیا ہے – مقامی لیڈر شپ irrelevant ہوگء ہے اور نظم و نسق ایکشن کمیٹی کے مطالبات اور اور مرکز حکومت کی عنا یات کے درمیان ڈول رہا ہے – یہ حکومت پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کے لئے بہت بڑا چیینج ہے اس کا ادراک کریں –
آخری بات: وقت آ گیا ہے کہ جذباتی نعروں سے نکل کر حقیقت پسند آئینی فیصلے کیے جائیں۔ اگر ریاست کو پاکستان کا حصہ بننا ہے تو دستور میں اس کی گنجائش پیدا کی جائے، ورنہ اسے واقعی آزاد تسلیم کیا جائے۔ موجودہ ”گری ایریا“ (Grey Zone) نہ صرف کشمیری عوام کے لیے بلکہ خطے کے امن کے لیے مستقل خطرہ ہے-




