
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی تازہ پریس کانفرنس نے محض ایک سرکاری ترجمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسی قومی آواز کے طور پر ابھر کر پورے ملک کو مخاطب کیا، جو واضح، ذمہ دارانہ اور غیر مبہم انداز میں ریاستِ پاکستان کے فکری، سلامتی اور گورننس کے تقاضوں کو سامنے لاتی ہے۔ ان کا خطاب صرف معلوماتی نہیں تھا؛ یہ لہجے کی متانت، الفاظ کی شفافیت اور قومی ضرورتوں کی درست ترجمانی کا وہ مستحکم اظہار تھا جس کی آج پاکستان کے بکھرتے بیانیے، سیاسی انتشار، معاشی بے یقینی اور معلوماتی جنگ نے سب سے زیادہ ضرورت پیدا کر دی ہے۔ ایسے ماحول میں ان کا بیان محض ایک بریفنگ نہیں بلکہ قومی بصیرت کا اعلان تھا—ایک پیغام کہ ریاست کی سمت کیا ہے اور قوم سے کیا چاہتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس محض ایک سرکاری بریفنگ نہیں تھی، بلکہ وہ ایک ایسا جامع اور گہرا بیانیہ تھی جس نے پاکستان کی داخلی سیاست، قومی سلامتی، ادارہ جاتی ہم آہنگی، گورننس اور صحافت کے مجموعی کردار کو ایک نئے انداز سے پوری قوم کے سامنے رکھا۔ ان کی گفتگو ایک افسر کی رسمی وضاحت نہیں بلکہ ریاست کی سوچ، اس کے خدشات، اس کی امیدوں اور اس کے مستقبل کے لائحہ عمل کی ایسی جھلک تھی جس کی آج پاکستان کو شدید ضرورت ہے۔ ملک اس وقت سیاسی تقسیم، معاشی بے یقینی اور معلوماتی یلغار کے چیلنج سے گزر رہا ہے، اور ایسی فضا میں ان کا خطاب قومی رہنمائی کا درجہ رکھتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نہایت واضح، غیر جارحانہ مگر مضبوط لہجے میں یہ حقیقت بیان کی کہ پاک فوج کا کردار آئینی حدود میں رہ کر قومی سلامتی کے تحفظ تک محدود ہے۔ سیاست میں مداخلت نہ ادارے کی ترجیح ہے اور نہ اس کے مزاج کا حصہ۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کو جن معاشی، سیاسی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں اداروں کی باہمی کشمکش یا ایک دوسرے کے خلاف بیانیوں کی جنگ کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ ایسے ماحول میں ہر ادارے کو اپنے دائرہ? اختیار میں رہتے ہوئے پوری قوت سے کام کرنا ہوگا، اور یہی وہ پیغام تھا جو انہوں نے بار بار خلوص اور ذمہ داری کے ساتھ دہرایا۔
انہوں نے ملکی سیاست کی مجموعی سمت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں، مگر ان اختلافات کو اداروں کے خلاف بیانیے کی بنیاد بنانا جمہوری اقدار کو کمزور کرتا ہے۔ بعض عناصر معمولی واقعات کو بھی سازشوں کا رنگ دیتے ہیں، جس سے نہ قومی وحدت مضبوط ہوتی ہے اور نہ عوام کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ سیاست کو استحکام کے بجائے کشیدگی کی طرف دھکیلنے والی روشیں پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت پر بھی زور دیا کہ بعض قوتیں اندرون ملک کمزور اور بیرون ملک مضبوط ہو جاتی ہیں، کیونکہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیانیوں کا ایندھن بن کر اصل مسائل سے توجہ ہٹا دیتی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی گفتگو میں وہ جملہ سب سے زیادہ نمایاں تھا جس نے اس پوری پریس کانفرنس کو ایک جامع قومی مکالمے کا رنگ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مفاد کسی ایک جماعت، کسی ایک شخصیت یا کسی ایک طبقے کا مفاد نہیں، بلکہ یہ پوری قوم کا اجتماعی مفاد ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اداروں کے درمیان بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنا قومی استحکام کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ غلط اور مسخ شدہ اطلاعات کے ذریعے پھیلائی جانے والی افواہ سازی ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے، اور اس چیلنج سے لڑنے کے لیے صرف فوج یا حکومت نہیں، پوری قوم کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔
اسی دوران جب سینئر صحافی عامر الیاس رانا نے ایک اہم سوال اٹھایا تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے نہایت دوٹوک انداز میں میڈیا سے وہ تقاضا پیش کیا جو اس پوری کانفرنس کی روح تھا۔ انہوں نے کہا کہ قومی پریس اپنی قوت، اثر اور رسائی کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرے۔ میڈیا سوال ضرور کرے، تنقید بھی کرے، مگر تنقید وہ جو پاکستان کو کمزور نہ کرے بلکہ مضبوط کرے۔ انہوں نے کہا کہ سنسنی خیزی، قیاس آرائی یا کلپس کی بنیاد پر تاثر سازی کا دور اب ختم ہونا چاہیے، کیونکہ پاکستان اس کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ مطالبہ دراصل میڈیا کے لیے ایک آئینہ تھا کہ وہ خود احتسابی کے ساتھ یہ دیکھے کہ اس نے ریاستی بیانیے کی تقویت میں کیا کردار ادا کیا اور انتشار کے ماحول میں غیر ارادی طور پر کیا نقصان پہنچایا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ حقیقت بھی اجاگر کی کہ میڈیا کو اختلافات کی بجائے اتفاق کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر ملکی میڈیا ہی ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد سوالات کھڑا کرے اور سوشل میڈیا کے غیر مصدقہ ذرائع کو خبر کا متبادل بنا دے تو پھر بیانیہ کمزور ہو جاتا ہے اور دشمن کو اپنے پروپیگنڈے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تمام میڈیا ہاؤسز سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے مفاد کو ہر بحث اور ہر رپورٹ میں مقدم رکھیں۔
پریس کانفرنس میں قومی سلامتی، دہشت گردی، سرحدی صورتحال اور علاقائی چیلنجز کا تفصیلی ذکر بھی ہوا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پاک فوج ہر محاذ پر پوری طاقت، مکمل تیاری اور اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سرگرم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دشمن قوتیں غلط معلومات اور نفسیاتی جنگ کے ذریعے پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں، مگر یہ ذمہ داری صرف فوج کی نہیں کہ وہ ان خطرات کا مقابلہ کرے؛ میڈیا، ریاستی اداروں اور عوام سب کو اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آنے والے معاشی اور سیاسی فیصلوں میں فوج کا کردار مکمل غیر جانبدارانہ اور آئینی دائرے تک محدود رہے گا۔ انتخابات کا مرحلہ ہو یا حکومتی فیصلے — عسکری ادارے صرف آئینی فریم ورک کے اندر اپنا تعاون فراہم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوج حکومت بنانے یا گرانے کا کام نہیں کرتی، اس کا کام صرف ملک کا دفاع ہے۔
پریس کانفرنس کے آخری حصے میں انہوں نے نہایت سنجیدگی اور درد کے ساتھ قوم کو اس سمت کی طرف متوجہ کیا جو پاکستان کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔ فوج اپنی جگہ مضبوط ہے مگر وہ اکیلے پاکستان کو نہ سنبھال سکتی ہے اور نہ سنوار سکتی ہے۔ سیاسی قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، عدلیہ کو انصاف کے عمل کو تیز اور مؤثر بنانا ہوگا، انتظامیہ کو گورننس بہتر بنانی ہوگی اور میڈیا کو سچائی کو اولیت دینی ہوگی۔ عوام کو بھی اپنی رائے جذبات کے بجائے حقائق کی بنیاد پر قائم کرنی ہوگی۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ قومی سیاست، میڈیا، ریاستی ادارے اور عوام سب کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس بیانیے کو محض رسمی پریس کانفرنس کے طور پر نظر انداز کریں یا اسے سنجیدگی سے اپنائیں۔ قومی پریس سے کوئی ڈکٹیٹیشن نہیں دی جا رہی، لیکن یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایسے مسائل جن پر بحث، تجزیہ اور حقیقت پسندی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے — جیسے قومی سلامتی، سرحدی چیلنجز، معاشی استحکام، افواہ سازی کے اثرات، اور اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا — انہیں ہر رپورٹ اور ہر کالم میں مستحق توجہ دی جائے۔
بلکہ اس پریس کانفرنس کی آواز میں یہ بھی شامل ہے کہ جن خیالات کا اظہار ترجمان نے کیا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے انہی نکات کو مختلف اوقات میں پاکستان افواج کی پالیسی اور قومی بیانیے کے طور پر واضح کیا ہے۔ یہ پیغام محض کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے نہیں بلکہ بین السطور ہر شہری، ہر ادارے اور قومی سطح پر مشترکہ ذمہ داری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب معلومات کی درستگی، سنجیدہ صحافت اور قومی مفاد کی ترجیح ہمارے اجتماعی کردار کا معیار بن سکتی ہے۔ اگر اس سمت میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو پاکستان نئی حکمت، نئی ہم آہنگی اور مضبوط قومی وحدت کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے، اور اگر نظر انداز کیا گیا تو نقصان صرف ریاست اور قوم کو پہنچے گا۔




