کالمزمظفرآباد

حکومت آزاد جموں و کشمیر تاجر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جائزہ و تجاویز)

ریاست کو ہم ماں سمجھتے ہیں۔ ماں کی ناقدری اللہ کی نافرمانی کے مترادف ہے۔ ریاست کے باسی اپنی ماں کی شفقت کے محتاج ہوتے ہیں اور ماں اپنی اولاد پر بڑی مہربان رہتی ہے۔ساری اولاد کا ایک جیسا خیال رکھتی ہے۔سب کے دکھ درد کو دور کرنے کے لیے ہر قسم کی سختی اور مصیبت برداشت کرتی ہے۔ خود بھوکی پیاسی رہ کر اپنی اولاد کا پیٹ پالتی ہے۔جب اولاد ماں کی خدمت کے قابل ہوتی ہے تو ماں کی خدمت اولاد پر فرض ہوتی ہے۔جو اولاد فرمانبرداری کی بجائے نافرمانی اور ناقدری کرتی ہے وہ تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ اس کی دنیا و اخرت برباد ہو جاتی ہے۔
ریاست میں بسنے والی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ اور اللہ کا عیال ہوتا ہے۔ جو لوگ اللہ کے کنبے اور اللہ کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک اور اچھا برتاؤ نہیں کر تے وہ اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں، کیونکہ اللہ ہی اپنے بندوں میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دے کر انہیں اپنی مخلوق کی خدمت کے لیے چن لیتا ہے اور انہیں اختیارات دے کر اپنی مخلوق کے لیے مساوی برتاؤ،حسن سلوک اور اچھی خدمت کا تقاضا کرتا ہے۔ جب منتخب لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو پھر اللہ اختیارات چھین لیتا ہے۔ دنیا و اخرت میں ان کی جزا و سزا کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ مواخذے کی کاروائی روبہ عمل ہوتی ہے
ریاست کا تقدس و تحفظ ریاستی قوانینِ اور جھنڈے کا احترام، اپنے ایمان اور اپنی جان سے بڑھ کر ہر شہری پر لازم و فرض ہے۔ اس کا گستاخ غدار ہے۔ غداری کی سزا، سزائے موت ہے۔
اس وقت آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج ہو رہا ہے۔ تاجر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نام سے آزاد ریاست جموں کشمیر میں ریاستی نظام،حکومتی سیٹ اپ، اور حکمرانوں کی ناجائز مرعات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ 29 ستمبر 2025 کو ریاست بھر میں نظام زندگی کو جام کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کی اس کال پر کتنے فیصد لوگ نظام رفتہ کو مفلوج کرنے میں اکٹھے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ
کیا احتجاج کرنے والے صرف ایک کراؤڈ ہے۔ ایک بے ہنگم جتھہ ہے۔ جو صرف اس حکومتی سیٹ اپ کو تباہ کرنے کے در پہ ہے۔ یا اس نظام اور حکومتی سیٹ اپ کو ختم کرنے کے بعد ان کے پاس فوری متبادل بہتر انتظام اور حکومتی سیٹ اپ کی پلاننگ موجود ہے۔ جو اس جاریہ نظام کو ہٹا کر متبادل نظام دے سکیں گے۔ ریاست میں افرا تفری پیدا کرنے کی بجائے فورا متبادل پہلے سے عمدہ نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کیا ریاستی عوام کو وہ تمام سہولیات دے سکیں گے۔ عوام جس کی توقع کیے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔
کیا مفت علاج معالجہ، مفت تعلیم۔یکساں نظام تعلیم دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر ڈوگرا نظام حکمرانی کے بعد بین الاقوامی سطح پر متنازع ریاست کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔جس کا ایک بڑا حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔ جہاں گزشتہ ستر سالوں سے کشمیری مسلمان بڑی مشکل سے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کو وہاں نہ تو مذہبی ازادی حاصل ہے نہ ہی معاشی و معاشرتی حقوق میسر ہیں۔ انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔بھارت سے آزادی کی خاطر تین نسلیں شہید کروا چکے ہیں۔
زمینی حقائق کے مطابق بین الاقوامی قراردادوں کیساتھ پاکستانی حمایت کے بغیر کشمیریوں کی آزادی کے اثار نظر نہیں آرہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ کہ جموں کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور ریاست جموں و کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے زیر تسلط ہے ہم اس کو جلد بھارت میں شامل کرائیں گے۔ اس خاطر پاک بھارت تین جنگیں بھی لڑی گئی ہیں۔ بھارت ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ آزاد کشمیر کو اپنے تسلط میں لے سکے۔ جب کہ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے۔گلگت بلتستان میں پاکستان صوبائی طرزِ حقوق کے تحت نظام حکومت چلا رہا ہے۔
عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نام پر آزاد کشمیر کے نظام حکومت کو کلوز کرنے اور عوامی حقوق کے نام پر 29 ستمبر 2025 نظام کاروبار وغیرہ بند کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطالبات دو طرح کے ہیں۔ مطالبات کا پہلا حصہ مہاجرین مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں بارہ(12)نشستوں کا خاتمہ،
نمبر دو مہاجرین مقیم پاکستان کا آزاد کشمیر کی ملازمتوں میں %25 فیصد کوٹے کا خاتمہ ہے
مہاجرین مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں بارہ (12) نشستوں کے تعین کا فیصلہ ان اکابرین اور بڑے قائدین کے ذریعے ہوا ہے جنہوں نے آزاد ریاست جموں کشمیر کو حکومتی نظام دیا۔تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں حکومت کا قیام عمل میں لایا۔ ان کے خیال میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت اور استصواب رائے کے تحت ہی کشمیریوں کے مقدر کا فیصلہ ہونا ہے۔ اس لیے مہاجرین مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائندگی بہت ضروری ہے۔ چھ ممبران اسمبلی ویلی کی نمائندگی اور چھ ممبران اسمبلی جموں کی نمائندگی سمجھی جائے گی۔اس طرح آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اور بیس کیمپ کی حکومت پوری ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت سمجھی جائے گی۔ ان بارہ نشستوں کو ایکٹ 1974 کے ذریعے قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔
اس وقت کی سیاسی و عسکری قیادت نے بڑی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کی نمائندگی کے لیے آزاد کشمیر اسمبلی میں چھ نمائندے ویلی اور چھ نمائندے جموں سے ہونے چاہییں۔
تو آج ان نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق، حق خود ارادیت یااستصواب رائے کے حق کو شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔
کوئی بھی قیادت یا حکومت یہ جرآت نہیں کر سکتی کہ کشمیر کی آزادی اور استواب رائے کے حق کو متاثر کیا جائے
ایسا کرنا کشمیریوں کی تین نسلوں کے لاکھوں شہداء کے خون کے ساتھ غداری اور اپنی نسلوں کے حق ازادی کو شدید نقصان پہنچانے کیمترادف ہو گا۔
اس لیے جمہوری نظام حکومت میں مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں کے خاتمہ کا فیصلہ کسی صورت میں قابل عمل نہیں ہو گا نہ ہی کوئی حکومت اس فیصلے کی متحمل ہو سکے گی۔ سوائے اس کے کہ جو لوگ خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ آمدہ الیکشن میں دو تہائی اکثریت کامیابی حاصل کرکے ترمیم کے زریعے ختم کر سکتے ہیں لیکن وہ بھی تحریک آزادی کے نقصانات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
البتہ نشستوں کے خاتمے کی بجائے ان کے انتخابی ضابطہ کار اور ضابطہ کامیابی میں ترمیم لائی جا سکتی ہے۔ اور یہ اعتراض ختم کیا جا سکتا ہے کہ پانچ سو ووٹ لینے والا بھی کروڑوں روپے کے ریاستی وسائل ہضم کرنے اور ریاست کے حکومتی سیٹ اپ میں عدم استحکام کا باعث بنتا ہے اس فتنے کا حل اور طرح سے نکالا جا سکتا ہے
نمبر ایک۔اگر ایک حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد ایک لاکھ ہے تو یہ طے کیا جائے کہ جو امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرے گا وہی کامیاب تصور ہوگا۔جو اس سے کم ووٹ حاصل کرے گا اس کی کامیابی کا نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں کیا جائے گا۔ تاکہ مناسب تعداد میں ووٹ لینے والا ہی نمائندگی کرنے کا اہل ہوسکے
نمبر دو۔ مہاجرین منتخب ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز سے مستقل مستثنیٰ کیا جائے۔
نمبر تین۔ مہاجرین ممبران اسمبلی کو آزاد کشمیر میں سروسز پرووائیڈر اداروں کی وزارت کا قلمدان نہ سونپا جائے۔
نمبر چار۔ مہاجر ممبران اسمبلی میں سے صرف دو ہی ممبران کابینہ میں شامل کیے جائیں۔
وزارت بحالیات کا قلمدان انہی دو وزراء میں سے کسی ایک کو دیا جائے۔
مہاجرین مقیم پاکستان کے لیے آزاد کشمیر کی ملازمتوں میں مقررہ کوٹہ% 25 فیصد سے کم کر کے زیادہ سے زیادہ %12 فیصد رکھا جائے۔
عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبے کا جو دوسرا اہم حصہ ہے اس کا تعلق مراعات یافتہ اور حکمران طبقے کی مراعات کے خاتمے سے ہے۔ راجا فاروق حیدر کے دور حکومت میں تیرویں ترمیم لائی گئی
تیرویں۔ترمیم کی روشنی میں ممبران اسمبلی کی تعداد کے تناسب سے وزراء کی تعداد کا تعین کیا گیا۔ جو کسی حد تک مناسب تھا اور ریاست کے وسائل بچانے کا اچھا فیصلہ تھا اسی فیصلے کو دوبارا بحال کیا جا سکتا ہے
مناسب تو یہ ہے کہ جتنے سیکرٹری حکومت ہیں اتنے ہی وزیر حکومت ہونے چاہییں سیکرٹری کم۔اور وزیر زیادہ یہ کہاں کا اصول یا انصاف ہے اور ہر وزیر کے ساتھ صرف ایک پرائیویٹ پرسنل ریلیشن آفیسر ہونا چاہئے
ہر وزیر کو صرف ایک سرکاری گاڑی الاٹ ہو اس کے لیے بھی سالانہ فیول کا تعین ہونا چاہیے۔
بجلی فری صرف دفاتر کی حد تک ہونی چاہیے سالانہ یونٹس کا تعین ہونا چاہیے۔علاج معالجہ کی سہولت عام شہریوں کی طرح ملنی چاہیے۔
موجودہ حکومت نے سابق وزرائے اعظم کی مرعات میں جو اضافہ کیا ہے اس سے سرکاری خزانے پر بے تحاشہ بوجھ ڈالا گیا ہے۔سابق وزرائے اعظم کو حالیہ دی گئی مرعات واپس لی جا سکتی ہیں۔ اسمبلی ممبران کی پنشن پالیسی پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
سیکرٹری صاحبان اور ہیڈ اف ڈیپارٹمنٹس کی مرعات کا جائزہ لے کر صرف ایک گاڑی اور اس کے فیول کا سالانہ کی بنیاد پر تعین کیا جائے گاڑی صرف سرکاری ڈیوٹی کے دوران استعمال کی جائے۔ زیادہ مہنگی گاڑیاں نہ دی جائیں۔
آزاد کشمیر میں بسنے والے زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ضروری ہے کہ یہاں مرعات اسلامی طرز حکمرانی پر قائم ہونی چاہیں یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کی مراعات کو رول ماڈل بنایا جائے۔ ویسے بھی یہ متنازعہ ریاست ہے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی
ریاست آزاد جموں وکشمیر میں تمام اداروں کے قیام کے لیے ایک کرائٹیریا مقرر ہونا چاہیے۔ ہر حلقہ،ہر تحصیل کے قیام اور ہرسطح کے اداروں کے قیام کے لیے کرائٹیریا مقرر کیا جائے۔ جیسے سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے یونین کونسلوں کے قیام کے لیے ایک کرائٹیریا دیا۔ اسی کرائٹیریا کو فالو کرتے ہوئے حلقے اور تحصیلوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تعلیم اور صحت کے اداروں کے قیام کے لیے بھی کرائٹیریا مقرر کیا جائے تاکہ ریاست میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک جیسی سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے۔جس طرح چیف ایگزیکٹو ازاد کشمیر جنرل محمد حیات خان مرحوم نے ایک کرائٹیریا کے تحت ہر گاؤں میں بچوں اور بچیوں کے لیے ایک ایک پرائمری سکول۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر بچوں اور بچیوں کے لیے ایک ایک ہائی سکول اور ہر یونین کونسل میں پانچ پانچ گرلز اور بوائز مڈل سکول رکھے۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک بیسک ہیلتھ یونٹ اور شفا خانہ حیوانات قائم کرنے کی پالیسی دی۔ لیکن اس وقت آزاد کشمیر میں بعض تحصیلیں صرف ڈیڑھ سے دو یونین کونسلوں کی آبادی پر قائم کی گئی ہیں۔ اور بعض تحصیلیں چھ لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ہیں۔ اس تفاوت کو دور کرنے کے لیے کرائٹیریا مقرر کیا جائے تاکہ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے۔
سڑکوں کی بین الیونین کونسلز، بین الحلقہ، بین التحصیل، بین الاضلاع اور بین الڈویژن تعمیر کو ممکن بنایا جائے۔ پورے آزاد کشمیر کے لیے آیک ہی معیار مقرر کیا جائے۔ عوامی مراعات میں ازاد کشمیر کو حسب تجویز گیس کی فراہمی۔ ریلوے لائن کی تعمیر اور مظفر اباد تا بھمبر سی پیک کی تعمیر ضروری ہے۔
تیس سال بعد ازاد کشمیر میں عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں بلدیاتی نظام بحال کیا گیا۔ نظام بحال تو ہو گیا مگر فعال نہ ہو سکا۔ جس کی وجہ سے اج آزاد کشمیر میں تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹیاں عوامی نمائندوں کی صورت میں پر تشدد حالات پیدا کر رہی ہیں حالانکہ تاجر اپنی زمہ داریوں میں سراسر فیل ہیں اپنی زمہ داریوں سے غافل ہیں، سادہ لوح عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔تاجر ایسوسی ایشن کی آڑ میں کرپشن میں ملوث ہیں۔ جس کی صرف ایک مثال پیش ہے کہ کوہالہ پُل سے پار ہوتے ہی فی گیس سلنڈر چھ سو روپے مہنگا فروخت کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ ریٹ مقرر کرے تو گیس سلنڈر غائب کر دیتے جاتے ہیں۔ ایک گھرانہ کم ازکم دو گیس سلنڈر ماہانہ استعمال کرتا ہے۔ ہر گھرانہ سستی بجلی کے بدلے مہنگی گیس خریدنے پر مجبور ہے۔پہلے اپنا کردار درست کیا جاتا ہے پھر دوسروں کی اصلاح کرنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت ایک طرف بازاروں میں ناجائز منافع خوری، مصنوعی مہنگائی، ملاوٹ، دو نمبر مضر صحت چیزوں کی فروخت،جعلی ادویات کا کاروبار سر عام ہو رہا ہے۔ دوسری جانب تاجروں کے ویر کو وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے۔
عوام نے اپنے حقوق کے تحفظ، وسائل کے منصفانہ استعمال، مسائل کے فوری حل کیلئے ازاد کشمیر میں ساڑھے ستائیس سو(2750) بلدیاتی نمائندے منتخب کیے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ عوامی حقوق اور مفادات کی خاطر آپنا قانونی پلیٹ فارم استعمال کرتے نظر نہیں آ رہے، بلکہ غیر متعلقہ لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔حکومتی نمائندگی کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ لیکن وہاں بھی نظر نہیں ارہے۔
بلدیاتی نمائندے تو گراس روٹ سطح سے لے کر اوپر تک عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں مسائل کے لیے وسائل کی فراہمی میں کردار ادا کرتے ہیں۔جہاں بلدیاتی نظام بحال اور فحال ہو وہاں کسی اورکو عوامی نمائندگی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی نمائندگان کو عوامی اور حکومتی نمائندے تسلیم کرتے ہوئے تمام مسائل کا حل ان کے ذریعے تلاش کرے۔ منتخب شدہ بلدیاتی نمائندے عوامی مسائل کے حل کے ضامن ہوتے ہیں۔
حکومت بلدیاتی نمائندوں کو زمہ داریوں کا احساس دلانے۔کردار کو فعال بنانے کے لیے تربیت کا اہتمام کرے۔
دنیا میں رائج بلدیاتی اداروں کی اہمیت اور حیثیت سے اگاہ کرے۔ ان پر اتنی انویسٹمنٹ کرے کہ بلدیاتی نمائندے اپنے اپنے علاقوں میں چینج ایجنٹ کے طور پر سامنے ائیں۔
قدرتی و انسانی وسائل کا مقامی سطح پر بھرپور استعمال کریں
کم سے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کر سکیں۔
شراکتی طریقہ ترقی کو فروغ دے سکیں۔ پائیدار اور شفاف ترقی کا راز شراکتی طریقہ ترقی میں مضمر ہے۔شراکتی طریقہ ترقی میں لوگوں کو احساس ذمہ داری اور احساس ملکیت ملتا ہے بلدیاتی نمائندے اپنے اپ کو عوام اور حکومت دونوں جانب سے بطور نمائندہ پیش کریں۔حکومت کی محدود و مخصوص پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت بلدیاتی نمائندوں کی جگہ غیر منتخب لوگوں آور تاجر ایسوسی ایشنز نے سنبھال رکھی ہے۔عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اتنی اگے بڑھ چکی ہے کہ ان کو کنٹرول کرناحکومت کے لیے اتنا آسان نہیں رہا۔
اس کے لئے ایک اعلی سطحی مزاکراتی /ثالثی فورم قائم کرنے کی ضرورت ہے میری تجویز ہے کہ تمام اضلاع کے چیئرمین صاحبان میونسپل کارپوریشن کے میٹرز کو ثالثی کی زمہ داری سونپی جائے۔ کہ وہ حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
اگر یہ ممکن نہ لگے تو پھر آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنوں سے ایک ایک نمائندہ ثالث منتخب کرتے ہوئے اگ ممکن ہو تو
میرپور ڈویژن سے جنرل ریٹائرڈ جناب شیر افگن خان،پونچھ ڈویژن سے سابق صدر سردار مسعود احمد خاں، مظفر آباد ڈویژن سے جسٹس ریٹائرڈ جناب غلام مصطفیٰ مغل پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اور اگر یہ بھی مناسب نہ لگے تو پاکستان کے چاروں صوبوں سے ایک ایک نمائندہ منتخب کرتے ہوئے۔
صوبہ بلوچستان سے سابق کئر ٹیکر وزیراعظم جناب انوار الحق کاکڑ۔ صوبہ سندھ سے جناب سید خورشید علی شاہ۔صوبہ کے پی کے سے سابق وزیراعلی جناب پرویز خٹک۔صوبہ پنجاب سے جناب راجہ ظفر الحق، جناب قمرالزماں کائرہ،اور وفاق سے اعظم نذیر تارڑ وفاقی وزیر قانون ہر مشتمل اعلیٰ سطحی ثالثی فورم قائم کیا جائے اگر ان میں کوئی شخصیت دستیاب نہ ہو یا کسی شخص پر اتفاق نہ ہو تو اس کی جگہ متبادل نام منتخب کیا جا سکتا ہے
یہ ثالثی فورم عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات اور حکومت ازاد کشمیر کے معروضی حالات و موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو فیصلہ صادر فرمائے۔ اس پہ فریقین کو عمل درامد کا پابند بنایا جائے۔
یہ تو ہے راقم کی خوش خیالی، حکومت کو پتا ہوتا ہے کہ کہ عوام کو کیسے مطمئن کرنا ہے حالات کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ریاست کی رٹ کو کیسے بحال رکھنا ہے۔

Related Articles

Back to top button