کشمیریوں نے الحاق پاکستان کیلئے جانوں کی قربانیاں دیں،سردار عتیق

مظفرآباد (محاسب نیوز)آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے کہا ہے کہ نومبر کا مہینہ ان عظیم کشمیری مسلما نوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے ریاست جموں وکشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان سے الحاق کیلئے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں۔جموں کے مسلمانوں کی نسل کشی جو اگست 1947 سے شروع ہوئی اور نومبر تک جاری رہی، آج بھی انسانیت کے ماتھے پر بد نما داغ ہے۔ جموں کے شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جانے دینگے۔ مسلم کانفرنس ”شہدا جموں ” کی یاد میں ہفتہ شہدائے جموں بھرپور عقیدت و احترام سے منا رہی ہے۔ ایک خصوصی پیغام میں انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے نومبر1947میں دو قومی نظریے کے تحت ”پاکستانیت” کا جو عملی مظاہرہ کیا وہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے ایک مثال اور اہلیان پاکستان کے لئے مشعل راہ ہے۔ سردار عتیق نے کہا کہ اس وقت کی مسلمہ کشمیری قیادت جو رئیس الاحرار قائدملت چوہدری غلام عباس اور انکے رفقا کار پر مشتمل تھی نے ریاست جموں وکشمیر کی سواد اعظم آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قیام پاکستان سے 23دن قبل ایک متفقہ قرارداد جسے قراردادِ الحاق پاکستان کے نام سے جانا جاتا یے کے ذریعے ریاست کی تقدیر کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا تھا۔یہی وہ پس منظر تھا جس کی بنیاد پر مہاراجہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک شیطانی منصوبہ تیار کیا کہ مسلمانوں کو یا تو ختم کردیا جائے یا اس خطے سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا جائے۔سردار عتیق احمد خان نے مزید کہا یاد رہے کہ 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منانے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے صرف 6 نومبر کو ہی مسلمان شہید کئیے گئے بلکہ جموں میں مسلمانوں کا یہ منظم قتل عام تین ساڑھے تین ماہ کے عرصے پہ محیط ہے۔ مہاراجہ حکومت نے قتل عام کے اس منصوبے کا آغاز جون جولائی سے ہی کردیا تھا۔ جموں میں مسلمانوں کے اس منظم قتلِ عام پہ مختلف مستند بین الاقوامی مرخین نے اپنی کتابوں میں ناقابل تردید اعدادوشمار دئیے ہیں جواب تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔جیسا کہ مشہور مرخ جوزف کاربل نے اپنی کتاب danger in Kashmir میں لکھا ہے کہ مسلمانوں سے اسلحہ ضبط کر کیہندو اور سکھ انتہا پسند تنظیموں میں تقسیم کیا گیا۔ مشرقی پنجاب سے آر ایس ایس اور اکالی دل کو ریاست میں لایا گیا۔اسی طرح مشہور ہندوستانی مرخ اور مصنف اے جی نورانی اپنی کتابThe Kashmir dispute میں لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ گورنر جموں کو آر ایس ایس کے ذریعے غیر مسلم علاقہ بنانا چاہتا تھا۔ مسلمانوں کو قتل کیا جاتا یا انھیں پاکستان کی طرف نکالا جاتا۔ اگست میں شروع ہونے والے چار ہفتوں کی اس مہم میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور دو لاکھ سے زیادہ ہجرت پہ مجبور ہو گئے۔ مشہور برطانوی مرخ الیسٹر لیمب اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ” اکتوبر کے آغاز میں گجرات اور سیالکوٹ سے ملنے والے تین میل کے علاقے سے ہندو آبادی کو نکال کر مسلمانوں کو مارا گیا اور نکالا گیا، بلکہ اس دوران کئی بار ڈوگرہ فورسز نے پاکستان کے علاقوں میں بھی داخل ہو کر مسلمانوں کے گھر جلا?۔ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر جی کے ریڈی جس کو 15 اکتوبرکو سرینگر سے نکالا گیا تھا، دس دن تک دو میل ہیڈ کوارٹر میں زیر حراست رہا۔ اس نے انٹر ویو میں بتایا کہ مہاراجہ نے غیر مسلح مسلمانوں پہ شرمناک تشدد کروایا، مسلمانوں کو گولی مارنے کے بعد لاش کے ٹکڑے کیئے جاتے۔اس نے خود دیکھا کہ فوجی افسران مسلح ہجوم کو مسلمانوں کے قتل کے احکامات دیتے۔ جموں میں تقریبا 24 گاں جلائیگئے۔اسی طرح آسٹریلوی مصنف کرسٹوفر سنیڈن لکھتے ہیں کہ 20 اکتوبر کو کٹھوعہ میں 8 ہزار, اکھنور کے علاقے میں 15 ہزار، اور 22 اکتوبر کو سامبا کے علاقے میں 14 ہزار مسلمانوں کو مارا گیا، یعنی صرف تین دن میں 37 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ معروف مورخ”مسٹر آئن سٹیفن” کے مطابق جموں کے مسلمانوں کو1947 میں بڑی ابتلا کا سامنا کرنا پڑا۔



