آئین پاکستان میں 27ویں ترمیم؟

”معرکہ حق“10مئی 2025ء بوقت9بجے رات GEOٹی وی چینل نے اپنی سکرین پرواٹس ایپ نمبر 0317-2484679پر معرکہ ”سندو ر بمقابلہ بلیان مرصوص“ میں پاکستان کی لازوال کامیابی پر عوام الناس کو تہنتی پیغام دینے جانے کی خبر نشر کی۔ تو میں نے بلا تاخیر 9:07منٹ پر اپنے ہاتھ سے لکھا پیغام وٹس ایپ کر دیا جس کا منت 14مئی 2025کالم شائع شدہ روزنامہ دومیل جو دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوا۔ جو اس موقع پر دوبارہ بذیل نقل کیاجاتا ہے ”بھارت کے خلاف جنگ میں غیر معمولی کامیابی پر اللہ تعالی کا شکر بجا لانے کے بعد پوری قوم /پاکستان آرمی، محترم شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان، جنرل حافظ عاصم منیر، ظہیر احمد بابر ایئرچیف، لفٹینٹ جنرل احمد شریف DGISPRاور محترم اسحاق ڈار صاحب خصوصی مبار کباد کے مستحق ہیں۔ جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل اور ظہیر احمد بابر کو بھی اپ گریڈ ہونے کے مستحق ہیں۔ امن بحال کرنے پر و سیر فائر ممکن بنانے عالمی لیڈر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ اور مسٹر روبیو حقائق سامنے GEOنک رابرٹسن، چین، بر طانیہ، ترکی،
سعودی عرب، ایران و دیگر پاکستان قوم کی طرف سے خصوصی شکریہ کہ مستحق ہیں۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ فلسطین و مسئلہ کشمیر اپنی قیادت میں حل کروا دیں تو تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور دینا کے دو ارب مسلمان و دیگر امن پسند انسان بھی ان کے شکر گزار ہو نگے۔“ (اس کالم میں اپنی تجاویزمیں اضافہ بھی کیا)۔ قیاس یہی ہے کہ GEOکے اعلان کے 7منٹ کے اندر یقینا میری تجویز سب سے پہلی ہی ہو گی جو میرے دل کی آواز تھی۔ چنانچہ مجوزہ ترمیم میں فیلڈ مارشل کے ٹائیٹل کو آئینی شکل دیے جانے اور”چیف آف ڈیفنس فورسز“ کا رتبہ دیا جانا بھی خوش آئندہے۔
اسی طرح بطور صدر /دیگر کو آئینی Amnesty/Immunityصرف عہدے کے تعیناتیوں کی حد تک ہی محدود رکھی جانی چاہے تاکہ کوئی بھی امتیازی حثیت میں آئین سے بالا تر نظر نہ آئے۔ وفاقی آئینی عدالت صرف 4آئینی ماہرججز پر مشتمل ہونی چاہئے جن کا محب وطن پاکستان ہونا شرط ہو اور ریٹائرڈ منٹ کی عمر بھی 65سال ہی رکھی جانی چاہیے چونکہ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کوٹ کے مابین حجم کار تقسیم ہو گا اس لیے ان 4ججز کی تعداد بھی سپریم کوٹ کے ججز کی موجودہ تعداد کے اندر ہی رہنی چاہئے ملک کی معشیت اور مرعات کا Ratinaleہونا بھی ضروری ہے۔ ہائی کورٹس کے مابین ججز کے تبادلہ جات مشترکہ سنیارٹی ترتیب دے کر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ عدالتی مقدمات کے تعداد میں کمی ججز و عدالتوں کی تعداد میں اضافے سے نہیں بلکہ Good Governance/ Good Services کی رٹ قائم کرنے سے ممکن کرنا ہے جس کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامی /مالی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مقدمات کی تعداد میں اضافہ”بیڈ گورنس کا لٹمس ٹیسٖٹ ہوتا ہے۔ ہم اس رائے کا اعادہ کرتے ہیں کہ جس اتھارٹی کا کوئی فیصلہ /حکم غیر قانونی قرار پائے اس کے جملہ مضمرات اسی کی قانونی ذمہ داری ہو تو خود بخوگڈ گورنس ہو جائے گی۔ اس طرح ایک چھوٹا سا قانون بنا دیا جائے تو سارے مسائل حال ہو سکتے ہیں۔
The International Bill of Human Right, 19448″ "جو تمام ممالک کے دساتیر میں دیئے گئے بنیادی حقوق کا ”مدر لا“ ہے کہ تحت دینا بھر کا کوئی بھی انسان ایک وقت میں صرف ایک شہریت ہی رکھ سکتا ہے۔ دوسری شہریت لے تو سکتا ہے لیکن پہلی سیز ہو جائے گی اور دوسری ترک کر کے پہلی بحال کروا سکتا ہے۔ اس طرح دینا کی مردم شماری میں ایک فرد کی ایک بار ہی گنتی ہو سکتی ہے۔ لہذا دوہری شہریت کا تصور ہی درست نہیں ہے۔
18ترمیم کے بعد وفاق کے مالی پوزیشن بہتر بنانے کا واحد حل یہ ہے کہ وفاق کا حجم کار زیادہ سے زیادہ صوبوں کو اور صوبوں سے اضلاع /یونین کونسل تک Devolveکیا جائے۔ اس طرح Decentraliztionسے ملکی تعمیر و ترقی کا جملہ کام مقامی حکومتوں (بلدیات) کواور اسمبلیوں کا کا کام صرف قانون سازی رکھا جائے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ہم نے برطانیہ و امریکہ سے ہٹ کر اپنی مرضی کی جمہوریت کے نام پر غیر ضروری اخراجات کے کھانچے کھول رکھے ہیں۔ بیروکریسی پر بھی جاب ڈسکرپشن، رائٹ سائزنگ اور All Forms of Discrimiationsکا خاتمہ کر کے ہم خود انحصاری اور ماڈل سٹیٹ بن سکتے ہیں۔ ڈھنگ ٹپاؤ پالیسی ہر میدان سے یکسر ختم ہونی چاہئے۔ مصلحت امیزی، پسند نا پسند، Autheritationism, Sectarianism، صوبائیت، علاقیت، قومیتوں کا پرچار اور دوسری و تیسری پاکستانی نسلوں مہاجر و مقامی میں تقسیم کر کے سیاسی دوکانیں چلانا بند کرنا ہو گی۔ آزادی بڑی نعمت ہے اس کی قدر کی جائے۔
٭٭٭٭٭٭




