کالمز

خانہ بدوشوں (بکروال) کا ہماری معیشت میں کردار

تحریر:عدنان رشید ملک

ہر معاشرے میں مختلف انواح کے طبقات جنم لیتے ہیں یہ بھانت بھانت کے لوگ مختلف رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ ہر طبقہ اُسی معاشرت میں پروان چڑھنے سے اپنی ایک انفرادی پہچان اور شناخت کا حامل ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کے عوض اُنہیں اسی نام سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اِس طرح جس جگہ اور مقام یا جس ماحول میں اُن کی پیدائش و پروان کے مراحل گزرتے ہیں اُن کی گہری چھاپ اُن کی طرزِ زندگی میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ایسے طبقات کا رنگ ڈھنگ، رہن سہن اور بود و باش کا سلسلہ زِندگی بھر اُسی ماحول کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ طبقات اشرافیہ کہلاتے ہیں اِس معاشرت میں اُن کی طرزِ زِندگی آسائش اور زیبائش سے آراستہ اور پیراستہ ہوتی ہے۔ اُنہیں زِندگی بھر کسی آزمائش کا سامنا نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح متوسط اور غریب طبقہ بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اب تو یہ کہا جاتاہے کہ ایک طبقہ ہمارے ہاں غربت کی لکیر سے بھی نیچے انتہائی مخدوش حالات میں زِندگی کی گاڑی کھینچے چلے جا رہا ہے اور وہ ہماری آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ اِن سبھی طبقات نے اپنی زِندگی کو رواں دواں رکھنے کیلئے کسی نہ کسی پیشہ سے اپنا تعلق جوڑ رکھا ہے۔ جن طبقات کو وسائل مل جائیں وہ اپنی زِندگی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے معاشرے میں مثبت اور بہتر ذریعہ معاش تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ تعلیم کے حصول کے علاوہ کوئی تکنیکی ہنر سیکھ کر کے بھی روزگار تلاش کر لیتے ہیں۔ بعض حضرات کاروبار سجا کر اپنے آپ کو کاروباری طبقہ کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح کسی کا دانہ پانی لکھا ہے اسے وہ وسائل میسر آ ہی جاتے ہیں کیونکہ اللہ نے ہر ایک کیلئے رزق کا وعدہ فرما رکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ہے۔ ”یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے“۔ بہرکیف جس کسی کو جس طرح بھی روزگار کے وسائل مل جاتے ہیں وہ طبقہ اپنے آپ کو اُسی میں ڈھال لیتا ہے۔ پھر وہی مخصوص طرزِ معاشرت اُس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے وہ اُسی ماحول میں سکھ و چین محسوس کرتا ہے اور اُسی میں راحت و سکون کا متلاشی رہتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک اہم طبقہ ایسا بھی ہے جنہیں ہم خانہ بدوش کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہمارے ہاں کئی قسم کے خانہ بدوش پائے جاتے ہیں لیکن سب سے اہم خانہ بدوش بکروال ہیں جو صدیوں سے اپنی زِندگی کو ایک ہی ڈگر میں چلا رہے ہیں۔ ان کے روزگار کا سلسلہ بھیڑ بکریوں کی پیدائش اور افزائش سے منسلک ہے۔ اُن کا کاروبار جانوروں کی پرورش سے جڑا ہے بہت کم لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ طبقہ ہمارے معاشرے میں معاشی و سماجی لحاظ سے کتنا اہم ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک دشوار اور کٹھن زِندگی گزارتے ہوئے سونا پالتے ہیں جو ہماری روزمرہ کی اقتصادی زِندگی کیلئے بہت اہم ہے۔ یہ طبقہ ہمارے لیے وہ خدمت سرانجام دیتا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے معاشرے میں صحت مند و توانا زِندگی گزارتے ہیں یہ ہماری حیوانی لحمیات کو پورا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم اپنے گوشت کی ضروریات پورا کرنے کیلئے اُنہی کی طرف نظردوڑاتے ہیں۔ ان کے پاس بہت بڑا Genetic Source ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ یہ اپنے جانوروں کو بڑی محنت اور جانفشانی سے پال پوس کر اُنہیں فروخت کرتے ہیں جو کہ نہ صرف ان کے اپنے لیے ذریعہ معاش بلکہ ملکی اور غیرملکی ذر مبادلہ کمانے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہ طبقہ بڑا سخت جان واقع ہوا ہے دُوردراز دِشوار گزار علاقوں میں موسمی تھپیڑوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے ہیں بہت سے Anthropologist نے اِن کی طرزِ زِندگی و معاشرت پر بڑی گہری تحقیق کر رکھی ہے۔
زمانہ گزر چکا ہے یہ خانہ بدوش ہمارے علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں اپنی بھیڑ بکریاں لے کر دُور افتادہ علاقوں کے مختلف چراگاہوں کا رُخ کرتے ہیں یہ موسم گرما کے اوائل میں پنجاب کے میدانی علاقوں سے اپنا بوریا بسترا باندھے اپنے کنبہ کے ہمراہ خچروں اور گھوڑوں پر سوار یا پیدل بلند و بالا چوٹیوں کی جانب اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ ہمارے علاقوں کی اونچی سرسبز و شاداب چراگاہوں میں جا کر اپنا بسیرا کرتے ہیں اور موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی اپنا رخت سفر باندھ کر میدانی علاقوں کو واپس آ جاتے ہیں۔ آج کل کے موسم میں ہمارے علاقوں میں اِن کی واپسی کا سفر شروع ہے یہ اب کثیر تعداد میں اپنے ریوڑوں کے ساتھ باپیادہ ہی اپنی منزل کی طرف سڑکوں اور شاہراہوں پر رواں نظرآتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمیں ان کے ذریعہ سے خالص شہد، زیرہ اور دیگر خشک میوہ جات بھی مل جایا کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ ناپید ہو چکا ہے۔ شاید اُنہوں نے کوئی اور مارکیٹ ڈھونڈ رکھی ہے۔
اِن کی طرز زِندگی اور ان کے عادات و اطوار پر لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ ہمارے معاشرے کی معاشی لحاظ سے کم تر طبقہ تصور کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اِنہی کی جانب سے ہمارے لیے زِندگی کو صحت و توانا رکھنے کیلئے ایک اہم فریضہ سرانجام دیا جا رہا ہے یہ لوگ آزادکشمیر بھر میں مختلف داخلی راستوں سے آتے جاتے ہیں تو انہیں دوران سفر بے پناہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اُنہیں کوئی ٹرانسپورٹ کا ذریعہ میسر نہیں ہوتا اور نہ ہی اُنہیں اپنے جانوروں کیلئے کوئی مناسب سہولیات ملتی ہیں ان کا کوئی جانوریا یہ خود بیمار پڑ جائیں تو ازخود اپنی جڑی بوٹیوں کے ذریعے علاج ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کوئی اِکا دُکا ہمارے ویٹرنری کے شفاخانوں میں آ جائے تو اُسے شاید کوئی دوائی میسر آ جائے تو یہ غنیمت تصور ہوتی ہے۔ متعلقہ محکمہ کو چاہیے کہ وہ ان کیلئے کم از کم علاج کی سہولیات متوازن خوراک یا سپلیمنٹس کا بندوبست ضرور رکھا کریں یہ ایک طویل مسافت طے کر کے اپنی منزل کو پہنچتے ہیں پیدل سفر کے دوران ان کے جانور اپنا وزن کھو دیتے ہیں لہٰذا متبادل خوراک مہیا کرنا اِن کے جانوروں کیلئے بہت ضرور ی اور فائدہ مند ہوتا ہے ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے جو یہ خریدکر جانوروں کی دیکھ بھال پر لگا سکیں۔ یہ کام تو متعلقہ محکمہ ہی کر سکتا ہے۔ اِن کیلئے متعدی امراض کے خلاف حفاظتی ٹیکہ جات کا بندوبست ہی اِن کی اہم ضرورت ہے۔ میں چونکہ اِس محکمہ کا حصہ رہا ہوں مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک چیف سیکرٹری آئے تھے اُن کے دِل میں اِن لوگوں کیلئے نرم گوشہ نے جنم لیا تھا اُنہوں نے اِن بکروالوں کیلئے وسائل مہیا کرنے کیلئے محکمہ کو ہدایات دی تھیں جس پر اِن لوگوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِن کی بہتری اور خوشحالی کیلئے ایک منصوبہ بھی بنایا تھا لیکن موصوف کے تبادلہ کے ساتھ ہی وہ تیار کردہ PC-1 اور منصوبہ حوالہ شلف ہو گیا۔
یہاں یہ اَمر قابل ذِکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں وقت کے وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے اِن لوگوں کیلئے بہت سی سہولیات فراہم کر رکھی تھیں اُن کا اِس طبقہ سے ایک خاص تعلق تھا اُنہوں نے اِن کے بچوں کی تعلیم کیلئے بھی موبائل سکول اور اساتذہ میسر کر رکھے تھے جو کہ اِن خانہ بدوشوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا کرتے تھے۔ہمارے ہاں تو اِس چیز کا تصور بھی نہیں ہے۔ یہاں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ”ایں خیال است و محال است و جنوں“۔ ہمارے متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ اس طبقہ کی فلاح و بہبود کیلئے ضرور مناسب اقدامات اُٹھائیں تاکہ یہ بھی ہمارے معاشرے میں باعزت مقام حاصل کر سکیں۔
٭٭٭٭٭

Related Articles

Back to top button