جنرل دیویدی کی چین کو تھپکی پاکستان کو دھمکی

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دیویدی نے چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے پہلی بار پاکستان اور چین کے بارے میں دومختلف انداز اپنائے ہیں۔یوں تو چین کے مقابلے میں مونچھ نیچی کرنا ہی بھارت کی قومی پالیسی ہے مگر تب بھی چین کو ایک خطرے کے طور پر دیکھنا اور بیان کرنا اور پاک چین دفاعی تعاون پر خدشات ظاہر کرنا ان کا معمول رہا ہے۔اس بار بھارتی فوج کے سربراہ اس روایتی زاویہ ئ نظر سے ہٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔جنرل دیویدی نے چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ حقیقی خطِ قبضہ ایل اے سی پر صورت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل گئی ہے۔گزشتہ ایک سال میں بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان زمینی سطح پر گیارہ سوبار بات چیت ہوئی جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔اکتوبر2024سے اب تک ہمارے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔یہ بہتری اس لئے ممکن ہوئی کہ ہمارے اپنے سیاسی قائدین کے ساتھ کافی گفتگو ہوئی اور دونوں جانب سے اس پر اتفاق تھا کہ سرحدپر حالات جتنے معمول پر آئیں گے دونوں ممالک کے لئے اتنا ہی اچھا ہے۔بھارتی آرمی چیف کے مطابق اس عرصے میں زمینی سطح کے مذاکرات کے گیا رہ سو دور ہوئے۔اوسطاََ روزانہ مذاکرات کے تین دور ہوئے۔پہلے بات چیت کورکمانڈر ز کی سطح پر ہوتی تھی مگر اب ہم اسے بٹالین کمانڈر،کمپنی کمانڈراور پھر زمینی کمانڈروں کی سطح پر لائے ہیں۔اس بات چیت کا بڑا فائدہ یہ ہوا اگر ہندوستان کی فوج کسی بات پر اعتراض کرتی ہے تو چینی فوج اس پر غور کرتی ہے اور ہمارے اعتراضات دور کئے جاتے ہیں۔اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بھارتی کمانڈر بھنویں تان کر آنکھیں ماتھے پر سجا لیتے ہیں۔پاکستان کے بار ے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ایٹمی جنگ کی دھمکیوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔آپریشن سندو ر ابھی تو فلم شروع ہی نہیں ہوئی صرف ٹریلز دکھایا گیا تھاجو اٹھاسی گھنٹوں میں ختم ہوا۔اگر پاکستان دوبارہ کوئی حماقت کرتا ہے تو ہندوستان پوری تیاری سے مناسب جواب دے گا۔جنگ کی مدت کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔یہ اٹھاسی گھنٹے بھی ہوسکتی ہے چار ماہ اور چار سال بھی۔فوج ہر طرح کے حالات کے لئے تیار ہے۔ہندوستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے ساتھ بلاتامل یکساں سلوک کرے گا۔ہندوستان نے ترقی اور آگے بڑھنے کا تہیہ کیا ہے اس کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو بلا جھجک کاروائی کرے گا۔اس گفتگو میں بھارتی فوج کے سربراہ چین اور پاکستان کو الگ الگ ہینڈل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔چین کے بارے میں بھارت کا فدویانہ رویہ چانکیہ کی فلاسفی کے عین مطابق ہے جس میں طاقتور دشمن کے آگے جھک جانا اور کمزور دشمن کو دبوچنا بہترین حکمت عملی ہوتی ہے۔حالیہ برسوں کی مخاصمت کے دوران بھارت کی حکومت اور قیادت اسی فلاسفی پر عمل پیرا رہی۔کانگریسی راہنماؤں اور مسلمان راہنما اسدالدین اویسی نے پارلیمنٹ میں مودی کی اس پالیسی کا جم کا مذاق اُڑایا کہ وہ چین کو لال آنکھ اور چھپن انچ چوڑا سینہ کیوں نہیں دکھاتے حالانکہ چین لداخ میں بھارتی حدود میں پیش قدمی کررہا ہے مگر مودی اس تنقید اور طنزکے تیروں سے بھی بدمزہ نہ ہوئے اور چین کے بار میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اس کے برعکس پاکستان کا ذکر جب بھی ہوا بھارت کے حکمران جھاگ اُگلتے ہی پائے گئے۔اس پس منظر کے باوجود بھارتی آرمی چیف دومحاذوں کی جنگ کاذکر کرنے سے کنی کترا گئے جو بہت معنی خیز اور الارمنگ ہے۔گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں جب سے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ عملی شکل میں ڈھلنا شروع ہوا تھا تو بھارت کی فوجی حکمت کاروں کی گفتگو میں دومحاذوں کی جنگ کا خوف جھلکتا تھا۔بھارت کے کسی فوجی سربراہ یا فوجی دماغ کی دومحاذوں کی جنگ کے خدشے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔پچھلے فوجی سربراہ تو تو کھل کرکہا تھا کہ بھارتی فوج خو د کو دومحاذوں کی جنگ کے لئے تیار کر رہی ہے۔دومحاذوں کی جنگ کے فوجی ڈاکٹرائن نے اس خوف سے جنم لیا تھا مستقبل میں بھارت کی چین یا پاکستان کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو دوسرا ملک اس میں کود پڑے گا اوراس طرح بھارت کو بیک وقت چین اور پاکستان کے ساتھ لڑنا پڑے گا۔دومحاذوں کی جنگ کا تصورہی بھارت کے لئے سوہان ِ روح اور مستقل دردِ سر تھا۔یہی تصور کسی ممکنہ جنگ میں پاکستان کی مکمل برتری کی ضمانت بھی تھا۔پاکستان اور بھارت کی حالیہ جھڑپوں میں تین دن تک بھارت نے اپنا اٹھارہ سالہ ہدف پاکستان کے شہری علاقوں میں نشان زدہ مقامات پر حملوں کے ذریعے پورا کیا۔ممبئی دھماکوں کے بعد سے بھارت براہ راست اور کبھی امریکی مہربانوں کے ذریعے ایسی نمائشی کاروائی کا مطالبہ کرتا رہا جس سے اس کا ہاٹ پرسیوٹ یعنی گرم تعاقب کا فوجی تصور تکمیل پزیر ہو۔جواب میں پاکستان اس کاروائی کو خواہ وہ نمائشی ہی سہی اپنی ریڈ لائن قرار دے رہا تھا۔اٹھارہ برس بعد بھارت نے یہ کاروائی کرلی مگر طاقت کا پانسہ اس وقت پلٹ گیا جب چین کے سیٹلائٹ نظام نے پاکستان کی مدد کی۔یہ صورت حال بھارت کے لئے پریشان کن اور امریکہ کے لئے بھی حیران کن تھی جو مدت دراز سے بھارت کے لئے یہ حق مانگ رہا تھا۔بھارت کے عسکری ماہر پروین ساہنی مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ یہ شاید دو سرحدوں کی باضابطہ لڑائی نہ ہو مگر چین اپنی ٹیکنالوجی اور مہارت پاکستان کو منتقل کرکے اس سے عملی طور پر دومحاذوں کی ہی جنگ بنائے گا۔حالیہ جھڑپوں میں ایسا ہی ہوا۔1962کی ہند چین جنگ میں بھی چین نے اس کو دومحاذوں کی جنگ بنانے کی کوشش کی تھی اور پاکستان کو کشمیر میں کاروائی کرنے کا پیغام بھیجا تھا مگر امریکہ نے درمیان میں آکر تنازعہ کشمیر حل کرنے کی یقین دہانی کراکے پاکستان کو کسی کاروائی سے روک دیا تھا۔آج بھی دومحاذوں کی یہ جنگ اور چین اور پاکستان کے درمیان اس نوعیت کا دفاعی تعلق جس سے خطے میں سٹیٹس کو ٹوٹنے کا خطرہ ہو امریکہ کو قبول نہیں تھا۔اس لئے وہ پاکستان پر مسلسل یہ دباؤ ڈالے رہے کہ چین کے ساتھ تعاون کواس سطح پر نہ لے جائیں کہ زمینی حالات میں کوئی عملی تبدیلی رونما ہو۔اب بھارت پاکستان کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ میں چین کو اس انداز سے نیوٹرلائز کرنا چاہتا ہے کہ یہ دومحاذوں کی جنگ میں ڈھلنے نہ پائے۔ٹیکنالوجی کا توڑ ٹیکنا لوجی سے ہو سکتا ہے مگر جب دو ملک عملی طور پر دو اطراف سے کسی ملک پر پل پڑیں تو اس کے لئے اپنا وجود سنبھالنا اور بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔پاکستان جس تیزی کے ساتھ مغربی لابی کے زیر اثر جا رہا ہے اور جس طرح گوادر پورٹ بے رونق اور تجارت کا مرکز بننے سے محروم ہے اس میں یہ سوال اہم ہوجاتا کہ کیا پاکستان اور چین کے تعلقات کا پرانا لیول برقر ار ہے؟۔بھارت اس تعلق کو منہ میں رام رام کے ذریعے اس انداز سے کمزور کررہا ہے کہ یہ تعلق اور تعاون اس کے لئے ایک دیوہیکل چیلنج بن کر سامنے نہ آئے۔بھارتی آرمی چیف کا یہ بدلا ہوا انداز اسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔




