کالمزمظفرآباد

حقیقتِ محمدیہ سے سیرتِ محمد ﷺ تک، ایک فلسفیانہ و روحانی مطالعہ

ڈاکٹر محمد فیصل (اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ہری پور)

سیرتِ خیر الانام ﷺ کے سلسلے میں آج ہماری گفتگو کا محور ایک نہایت اہم جہت جس کو ”حقیقتِ محمدیہ ﷺ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیرت مبارکہ کے اس پہلو کو ہم قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، اسلامی روایات، صوفیانہ تعبیرات، اور علمی تفصیلات کی روشنی میں اس حقیقت کو پیش کرتے ہیں، تاکہ واضح ہو سکے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کا نور پیدا کیا، اور اسی نور سے کائنات کی تخلیق عمل میں آئی۔اسلامی مابعد الطبیعات اور صوفیانہ فکر میں نورِ محمدی ایک مرکزی اور بنیادی حقیقت کے طور پر جلوہ گر ہے، جو نہ صرف کائنات کی تخلیق کی بنیاد ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی سیرت و شخصیت کا سرچشمہ بھی ہے۔ یہ نور ازلی، غیرمادی، عقلانی اور کامل ہے، اور اللہ کی پہلی تخلیق کے طور پر وجود میں آیا۔ قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ، اور صوفیانہ تعبیرات اس نور کے وجود اور اس کی عظمت کی تصدیق کرتی ہیں۔ نورِ محمدی صرف مابعد الطبیعات میں ہی اہم حقیقت نہیں، بلکہ صوفیاء و حکما کے نزدیک یہ انسانی وجود اور روحانی کائنات کی بنیاد بھی ہے۔حالانکہ قرآن کریم میں ”نورِ محمدی” کا لفظ خاص طور پر ذکر نہیں ہوا، مگر متعدد قرآنی آیات جیسے کہ ”نورٌ علیٰ نور” اور ”سراجاً منیراً” اس کے حوالے سے اہم اشارے مہیا کرتی ہیں، جن کا مطلب نبی ﷺ کی شخصیت میں موجود الہی نور کا مظہر ہونا ہے۔مفسرین اور صوفیائے کرام نے اس نور کو اللہ کی پہلی تخلیق قرار دیا ہے۔ مختلف احادیث، مثلاً ”اول ما خلق اللہ نوری”، اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی ﷺ کا نور آدم کی تخلیق سے پہلے موجود تھا۔ اس حقیقت کے مطابق نبی ﷺ کی ذات انبیاء کی حقیقت سے معدود ہے۔ جبکہ قرآنی آیات نے بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جیسے ”قد جائکم من اللہ نور” جو نبی ﷺ کی عالمگیر حیثیت کو ظاہر کرتی ہے۔ علمائے کرام نے اس نظریے کو تاریخی اعتبار سے بھی مستند سمجھا ہے، جیسا کہ: امام سیوطی اور امام قسطلانی نے اسے تخلیق کی ابتدا قرار دیا ہے اور ابن حجر ہیتمی نے ان روایات کے معنی کی صحیح تفہیم کواہلِ حقیقت کے نظریات کے مطابق دیکھا ہے۔
اس سلسلے میں صوفیاء جیسے کہ ابن عربی اور مولانا روم نے نورِ محمدی کو انسانی وجود کا بنیادی عنصر مانا، جبکہ بایزید بسطامی کے قول پر یہ بھی کہا گیا کہ یہ نور روح کی حیات ہے۔ اس نظریے پر ناقدین نے کئی اعتراضات اٹھائے ہیں، تاہم، یہ وضاحت کی گئی ہے کہ نورِ محمدی کا تصور تاریخی طور پر قدیم ہے اور اس کے ساتھ قرآن و حدیث میں موجود اشارے اسے حمایت فراہم کرتے ہیں۔ یہ نور رحمت، ہدایت، اور کمال کا ذریعہ ہے، جبکہ نبی ﷺ کی ظاہری شکل دراصل اسی نور کی زمین پر اتری ہوئی تجلی ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نے ایک اہم نقطہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے نورِ محمدی یا حقیقت محمدی کی حقیقی تفہیم کو تین درجات میں بیان کیا ہے:
1) ماقبلِ تخلیق حقیقت: نورِ محمدی کو اللہ کی پہلی تجلی قرار دینے کی مدلل وضاحت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نورِ محمدی تخلیقِ کائنات سے پہلے موجود ایک نورانی حقیقت ہے، جسے مختلف ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، جیسے کہ العقل الأول، التجلی الأول اور الروح الأعظم۔ اسلامی مابعدالطبعیات کے اصول کے مطابق، حقیقی واحد سے سب سے پہلے صرف ایک نورانی حقیقت صادر ہوئی، جسے تجلیِ اول سمجھا جاتا ہے۔ ایک اہم حدیث ”کنت نبیاً وآدم بین الروح والجسد” کے مطابق نبی ﷺ کی نبوت، آدم کے تخلیق سے پہلے ہی موجود تھی۔ یہ مذہبی و فلسفیانہ تناظر میں نبی ﷺ کی نورانی حقیقت کے وجود کی وضاحت کرتی ہے۔ بہت سے مفسرین نے نور کا مصداق رسول اللہ ﷺ کو قرار دیا ہے، جو نورِ محمدی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اسلامی فلسفہ میں نورِ محمدی کو ”عقلِ اول” کے مترادف سمجھا جاتا ہے، جو کہ پہلی مجرد حقیقت ہے اور مادّے سے پاک ہے۔ یہ سب سے پہلے پیدا ہونے والی مخلوق ہے جو کہ دیگر مخلوقات کے وجود کا سبب بنتی ہے۔ نورِ محمدی کو عالمِ امر سے منسلک ہونا اوردلیل دی گئی کہ مادّہ تو کائنات کی تخلیق کے ساتھ وجود میں آیا، اس لئے نورانی اور مجرد حقیقت ہی ماقبل تخلیق ہو سکتی تھی۔صوفیاء جیسے ابن عربی، مولانا رومی اور امام قشیری نے بھی اس نور کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نور زمان و مکان سے ماورا ہے۔ ابن عربی نے کہا کہ حقیقتِ محمدیہ وجود کی سب سے پہلی تجلی ہے، جبکہ مولانا رومی نے اس نور کو دنوں عالموں سے پہلے قرار دیا۔ نتیجتاً، نورِ محمدی کی بیان کی گئی صفات اس کو اولین الٰہی تجلی کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہ نور نہ تو جسمانی ہے اور نہ ہی مادّی، بلکہ یہ مکمل طور پر عقلانی اور مجرد دنیا کی حقیقت ہے۔ اس نور کی ابتدائی حیثیت اسلامی فلسفہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کی اہمیت کے تمام دلائل متفقہ طور پر پیش کیے گئے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ نورِ محمدی کائنات کی تخلیق سے پہلے ایک بہت ہی بنیادی حقیقت ہے۔
2) عالمِ امر کی حقیقت: پہلے درجے میں نورِ محمدی کو تجلیِ اول یا عقلِ اول کے طور پر دیکھا گیا ہے، جو اللہ کی پہلی تخلیقی شعاع ہے۔ جبکہ دوسرے درجے میں، یہ نور عالمِ امر میں حقیقتِ محمدیہ کی صورت اختیار کرتا ہے، جو ہر روح، نبی، ولی اور ملائکہ کی باطنی اصل ہے۔ قرآن کریم میں عالمِ امر کا ذکر ہوتا ہے، جو روح، نور، ملائکہ، اور عقل جیسے غیر مادی عناصر پر مشتمل ہے، جبکہ عالمِ خلق جسم، مادہ، زمان اور مکان کو بیان کرتا ہے۔نورِ محمدی کو دوسرے درجے میں حقیقتِ محمدیہ میں تبدیل دیکھا جا سکتا ہے، جہاں یہ کائناتی روح میں ڈھلتا ہے اور مجموعہ انوار و ارواح ربانی کا سر چشمہ بنتا ہے۔ یہ تبدیلی ”عقلِ اوّل” سے ”روحِ اعظم” کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں، روحِ محمدی عالمِ امر کی اصل ہے۔ تمام ارواح ”امرِ الٰہی” سے ماخوذ ہیں، جس کی اولین حقیقت نورِ محمدی ہے۔ اس لیے، تمام روحیں نورِ محمدی کے فیضان سے صادر ہوتی ہیں۔ حدیث میں ”کنت نبیاً وآدم بین الروح والجسد” اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ نبی کی روحانی حقیقت بنیادی طور پر موجود تھی اور یہ کہ ”اول ما خلق اللہ نوری” روایت کے مفہوم کو بھی علمائے کرام نے اسی پیرائے میں قبول کیا ہے۔ ابن عربی اور دیگر صوفیائے کرام کے اقوال بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تمام ارواح حقیقتِ محمدیہ کے فیض سے وجود پذیری ہیں۔ اسلامی فلسفہ کے مطابق، عقلِ اوّل سے روحِ کلی اور پھر جزئی ارواح پیدا ہوتی ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام ارواح نورِ محمدی کی تجلیات ہیں۔ ملائکہ، انبیاء، اور اولیاء سب نور کی شعاعیں ہیں، یہ سب عالمِ امر کی مخلوق ہیں، جو مادّے سے پاک اور نورانی ہیں۔ بہرحال نورِ محمدی عالمِ امر میں ”کائناتی روح” کی شکل میں موجود ہے، جو عقلِ اوّل سے ”روحِ اعظم” میں ترقی کرتا ہے۔ تمام ارواح اور انبیاء کی روحانی حقیقت اسی کا فیضان ہے، جبکہ ملائکہ کا نور بھی اسی حقیقت کا اثر ہے۔ یہ نور عالمِ امر کی مرکزی وحدت ہے، جو پوری کائنات کا روحانی نظم تشکیل دیتا ہے۔
3) عالمِ خلق میں حقیقت: عالمِ خلق میں حقیقت کے تیسرے درجے کا تجزیہ نورِ محمدی اور حقیقتِ محمدیہ کی مختلف جہتوں تک پھیلا ہوا ہے۔ پہلا درجہ نورِ محمدی ہے، جو ازلی، غیرمادی اور عقلانی حقیقت ہے جبکہ دوسرا درجہ حقیقتِ محمدیہ یا روحِ اعظم ہے، جو عالمِ امر میں تمام ارواح اور ملائکہ کی روحانی اصل ہے۔اور تیسرا درجہ وہ مرحلہ ہے جب یہ نورانی حقیقت نبی ﷺ کی جسمانی شخصیت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ظاہری حقیقت تاریخی اور بشری ہے، جبکہ اس کی باطنی حقیقت ازلی اور نورانی رہتی ہے۔ باطنی حقیقت ماورائی اور کائناتی روحانی مرکزیت رکھتی ہے، جبکہ ظاہری حقیقت نبی ﷺ کی جسمانی موجودگی سے منسلک ہے۔ یہ“تجلی”کی صورت میں ہوتی ہے، کوئی“حلول”یا“اتحاد”نہیں۔ قرآن کریم کی کئی آیات بینات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نہ صرف انسانیت بلکہ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں اور ان کی زندگی باطنی نور کا مادی اظہار ہے۔ احادیث کے مطابق، نبی ﷺ کی حقیقت ازل سے موجود تھی، جبکہ دوسری جانب نورِ محمدی کا جسمانی اظہار بعد میں ہوا۔ فلسفیانہ نقطہ نظر میں نور کی جسمانی صورت کا انسانی ہدایت اور مخلوقات کے ساتھ تعلق بھی ضروری تھآ، لہذا حقیقت محمدی کے تیسرے درجے میں بشری لبادی بھی عالم خلق کے تقاضوں میں سے ایک تھا۔ اس ضمن میں صوفیائے کرام میں سے ابن عربی، سہروردی اور رومی وغیرہ نے بھی یہی تسلیم کیا ہے کہ حقیقتِ محمدیہ نبی ﷺ کی جسمانی شخصیت میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ نبی ﷺ کے اخلاق، اعمال، اور تعلمیات نورانی حقیقت کی صورت ہیں، جو کہ عالمِ خلق میں حقیقت کا ظہور کرتی ہیں۔ نبی ﷺ کی جسمانی شخصیت تمام روحانی حقائق کا مرکز ہے اور ملائکہ، انبیاء اور اولیاء کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ان تینوں درجات کا باہمی تعلق نہایت عمیق اور ہم آہنگ ہے۔ ازلی اور نورانی حقیقت کائنات کی تخلیق کی بنیادی علت ہے، روحانی حقیقت ہر ایک روح کا مرکز اور سرچشمہ ہے، اور جسمانی صورت انسانی ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ اسی سلسلے میں، نبی کریم ﷺ نہ صرف ظاہری طور پر ایک بشری وجود ہیں بلکہ باطنی طور پر وہ نورانی حقیقت کے کامل مظہر بھی ہیں، جو الہی تجلی کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ اور آپ کی ظاہری زندگی، نورِ محمدی کے اس مظہر کی عملی اور تاریخی تصویر ہیں۔ آپ ﷺ کے اخلاقی فضائل، تعلیمات اور عملی نمونہ، درحقیقت ازلی نور کی انسانی صورت ہیں، جو ابتدا میں نورِ محمدی کی شکل میں وجود میں آئی، پھر عالمِ امر میں حقیقتِ محمدیہ کے روپ میں جلوہ گر ہوئی، اور آخرکار نبی ﷺ کی جسمانی شخصیت میں تجلی پذیر ہوئی تاکہ انسانیت کے لیے رہنمائی اور ہدایت ممکن ہو سکے۔یوں، نبی ﷺ کی زندگی، آپ کی سیرت اور آپ کی تعلیمات، ازلی، روحانی اور بشری حقیقت کے تسلسل کا مظہر ہیں، جو تمام روحانی و مادی کائنات کے لیے مرکزیت اور روشنی فراہم کرتے ہیں۔
اے اللہ! ہمارے باطن کو نورِ محمد ﷺ کی روشنی سے منور فرما، ہمارے افکار و دلوں میں تیری ہدایت کے شعاعیں جگا دے، اور ہمارے ظاہر و کردار کو سیرتِ محمد ﷺ کے حسن و کمال سے مزین کر دے، تاکہ ہر عمل و ہر قدم تیرے قرب اور انسانیت کی رہنمائی کا ذریعہ بن جائے۔ آمین

Related Articles

Back to top button