
موجودہ دور کو علم، معلومات اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے، جہاں ہر لمحہ نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں۔ ایسے حالات میں بچوں کے لیے صرف کتابی علم حاصل کرنا کافی نہیں رہا، بلکہ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ معلومات کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ ماہرینِ تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ *تنقیدی سوچ (Critical Thinking)* بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور یہی صلاحیت انہیں ایک ذمہ دار اور باشعور شہری بناتی ہے۔
تنقیدی سوچ سے مراد کسی بات کو اندھا دھند قبول کرنے کے بجائے اس پر غور و فکر کرنا، سوال اٹھانا، مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کرنا اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اور تعلیمی نظام میں اب بھی رٹے بازی کو کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے، جس کے باعث بچے تخلیقی اور فکری صلاحیتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے طریق? کار میں تبدیلی لائی جائے اور بچوں کو سوچنے کی آزادی دی جائے۔
تعلیمی ماہرین کے مطابق بچوں میں تنقیدی سوچ پیدا کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ *سوال کرنے کی عادت* کو فروغ دینا ہے۔ جب بچوں کو سوال پوچھنے کا موقع دیا جاتا ہے تو ان کی ذہنی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ ”یہ کیوں ہوا؟”، ”اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟” اور ”اس کا کوئی اور حل ہو سکتا ہے؟” جیسے سوالات بچوں کو گہرائی سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کے سوالات کو ناپسند کرنے یا نظرانداز کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
اسی طرح بچوں کو *مسئلہ حل کرنے والی سرگرمیوں * میں شامل کرنا بھی تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دماغی کھیل، پہیلیاں، گروہی سرگرمیاں اور کہانیاں بچوں میں تجزیاتی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ جب بچے کسی مسئلے کا حل خود تلاش کرتے ہیں تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے فیصلوں پر بھروسا کرنا سیکھتے ہیں۔
ماہرین تعلیم اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ نصابی مواد کو *حقیقی زندگی سے جوڑا جائے*۔ جب بچوں کو روزمرہ زندگی کی مثالوں کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے تو وہ محض الفاظ یاد نہیں کرتے بلکہ ان کے مفہوم کو سمجھتے ہیں۔ کلاس روم میں مباحثہ، مکالمہ اور خیالات کے تبادلے سے بچوں میں برداشت، رواداری اور منطقی سوچ پیدا ہوتی ہے۔
اس ضمن میں ایک اور اہم پہلو *میڈیا اور ٹیکنالوجی کا کردار* بھی ہے۔ آج کے بچے سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ذرائع سے مسلسل معلومات حاصل کر رہے ہیں، مگر ہر معلومات درست نہیں ہوتی۔ ایسے میں بچوں کو یہ سکھانا بے حد ضروری ہے کہ وہ معلومات کے ذرائع پر سوال اٹھائیں، سچ اور جھوٹ میں فرق کریں اور کسی بھی خبر یا مواد کو بغیر تصدیق قبول نہ کریں۔ یہ صلاحیت نہ صرف ان کی تنقیدی سوچ کو مضبوط بناتی ہے بلکہ انہیں گمراہ کن معلومات سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔
مزید برآں، بچوں میں *اخلاقی اور سماجی شعور* پیدا کرنا بھی تنقیدی سوچ کا اہم حصہ ہے۔ جب بچوں کو انصاف، دیانت داری، برداشت اور ذمہ داری جیسے اقدار کے بارے میں سوچنے کا موقع دیا جاتا ہے تو وہ محض اچھا طالب علم ہی نہیں بلکہ ایک اچھا انسان بھی بنتے ہیں۔ سماجی مسائل پر گفتگو اور عملی سرگرمیوں میں شرکت بچوں کو معاشرے کو سمجھنے اور مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اس سارے عمل میں *والدین اور اساتذہ کا کردار نہایت اہم* ہے۔ اگر والدین گھریلو معاملات میں بچوں کی رائے لیں اور اساتذہ کلاس روم میں آزادانہ گفتگو کا ماحول فراہم کریں تو بچے اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہنا سیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا خود تنقیدی سوچ کا مظاہرہ کرنا بچوں کے لیے ایک عملی مثال بن جاتا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ہم مستقبل میں ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جو شعور، سمجھ بوجھ اور مثبت سوچ پر مبنی ہو تو ہمیں آج ہی بچوں میں تنقیدی سوچ کی بنیاد رکھنی ہو گی۔ یہ کام صرف تعلیمی اداروں کا نہیں بلکہ والدین، اساتذہ اور پورے معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا حق دے کر ہی ہم ایک روشن اور مستحکم مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔




