
آج سوموارکا دن اور ستمبر کی 29 تاریخ ہے یہ آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا وہ ڈاون ٹاون ہے جہاں آٹھ اکتوبر دوہزاے پانچ کے زلزلے نے عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا اور ہزاروں افراد محصور ہو کر رہ گئے تھے۔اس کے باوجود بے خبری اور بے بسی کا عالم یہ نہیں تھا جو آج ہے۔یہاں کی ایک مقبول عوامی لہر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی پرامن احتجاج اور شٹر ڈاؤن کال کا پہلا دن ہے۔ایکشن کمیٹی کا نعرہ تھا”بند مطلب بند“۔ حکومت وریاست نے اس کال میں اپنا حصہ اس طرح ڈالا کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کرکے سب کچھ بند کردیا گیا ہے۔حکومتوں کا کام زندگی کا پہیہ بند کرنا نہیں بلکہ رواں رکھنا ہوتا ہے جس سے عام آدمی کونارملسی کا تاثر ملتا رہے۔یہاں اتوار کی صبح سے ہی انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر دی گئی ہے اور فضاؤں میں کچھ بڑا کچھ خوفناک اور کچھ تباہ کن ہوجانے کی بُو محسوس کی جارہی ہے۔جسے فالز فلیگ آپریشن سمیت کئی نام دئیے جارہے ہیں گویا کہ خون بہنا لازم ٹھہرا ہے۔ابھی پانچ سال پرانی بات ہے جب ہم سری نگر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کرنے کے خلاف لکھ کر ہلکان ہو رہے تھے اور بول کر گلہ خشک کیاکرتے تھے۔ہمیں یوسف جمیل،ریاض ملک سمیت سر ی نگر کے لاتعداد اخبار نویس دوستوں کی بے بسی اور بے کاری پر ترس آرہا تھا۔ایک صحافی جس نے دہائیوں تک خبر اور تجزیے کے پانیوں میں غوطہ زنی کی ہو کسی وجہ کسی خطا اور کسی جواز کے بغیر خود بے خبر اور بے دست وپا بنا دیا جائے تو یہ بھی کم اذیت ناک نہیں۔ایک کاروباری شخص جس نے دنیا کے جدید اور گلوبل ویلج بننے کے زعم میں اپنے کاروبار کو آن لائن بنیاد پر استوار کیا ہوایسے ماحول میں بے بسی کاچلتا پھرتا اشتہار بنتا ہے اور ایک طالب علم جس کی ساری دنیا اب آن لائن تعلیم اور تحقیق تک سمٹ گئی ہے ایسے ماحول کا تصور نہیں کر سکتا۔آزاد کشمیر کے بے شمار نوجوان اپنی صلاحیت اور مہارت کی بنیاد پر غیر ملکی کمپنیوں ساتھ وابستہ ہیں۔یہ اپنی خدمات کے عوض ڈالروں میں پیسے کماتے ہیں اور ملک کے زرمبادلہ کی بڑھوتری میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔لاتعداد ٹیچر آن لائن قرآن کلاسز اردو کلاسز اور دوسرے مضامین پڑھا کر نہ صرف اپنا روزگار چلاتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار اداکرتے ہیں۔آن لائن خرید وفروخت سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد وابستہ ہے۔آزادکشمیر میں کئی بڑے ادارے بلنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور وہ بیرونی دنیا کے اداروں کے لئے باغ میرپور اور مظفرآباد میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔کئی چیریٹی ہسپتال براہ راست بیرون ملک ڈونر اداروں کی نگرانی میں چلتے ہیں۔اسی نگرانی کا کمال ہے کہ ان اداروں کی مقامی انتظامیہ ہمہ وقت نظر رکھے جانے کی وجہ سے اچھا میعار دینے پر مجبور رہتی ہے۔ اٹھائیس ستمبر کو ستم یہ ہوا کہ انٹرنیٹ کے سہارے پر کھڑے اس پورے نظام کا چلتا ہوا پہیہ جام کر دیا گیا۔ پانچ اگست2019 کو ہم کشمیری معاشرے کے ہر طبقے کی ان ضروریات اور ناگزیر تقاضوں کو یاد کرکے پریشان ہوتے تھے۔ رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا یوسف جمیل جیسا صحافی خاموش ٹیلی فون،بند وائی فائی ڈیوائس،ڈبہ بنے لیپ ٹاپ کے ساتھ اب کیا کرتا ہوگا؟اس کے ساتھ ہماری انگلیاں کی بورڈ رقص کرنے لگتیں اورسری نگر کے صحافیوں،کاروباری لوگوں اور طالب علموں کے دکھ پر حرف احتجاج بلند کرتے۔تب تک کسی چینل یا ویب چینل سے فون آتا کہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش پر پروگرام میں شریک ہونا ہے تو ہم اس جدید سہولت کی بندش کے فیصلے کے خلاف دلائل جمع کرکے تیاری میں جُت جاتے۔پانچ سال کے بعد آزادکشمیر کے اخبار نویس طالب علم اور تاجر سری نگر کے”یوسف جمیل“ اور ”ریاض ملک“ بن کر رہ گئے ہیں۔گویا کہ”رانجھا رانجھا کردی میں آپئی رانجھا ہوگئی۔ آج پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا بھر میں مقیم آزادکشمیر کے شہریوں کے عزیز واقارب اسی طرح مضطرب ہیں جیسے پانچ اگست کو ہم لاک ڈاؤن میں پھنسے وادی کے اسی لاکھ عوام کے لئے فکر مندتھے۔ہمیں سوشل میڈیا پرہمہ وقت چہچہانے والے اپنے عزیز برخوردار دوست اس خیال کے ساتھ یاد آیا کرتے تھے جانے اب کس حال میں ہوں؟کہاں ہوں؟معاشی ناکہ بندی کے باعث انہیں کھانے کو کچھ ملتاہوگا؟آج یہ سب کچھ اُلٹا پڑ گیا ہے۔سینہ گزٹ کی تازہ رپورٹ یہ ہے لندن اور کئی دوسرے شہروں میں آزادکشمیر کے لوگ پاکستان کے ہائی کمیشن کے سامنے جمع ہوکر اپنی تشویش اور اضطراب کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک عام آدمی اس صورت حال سے کس طرح متاثر ہوتا ہے اس کی ایک مثال میں خود ہوں۔میں تین سٹیشنز سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ محاسب کے لئے اداریہ لکھتا ہوں۔ایک سٹیشن پر انٹر نیٹ کی بندش کے باعث اخبار چھپ ہی نہیں رہا بیرون آزادکشمیر کے دو سٹیشنز پر اداریے کی جگہ کیا چھپ رہا ہے مجھے علم نہیں۔میں نے کنٹریکٹ کے تحت پشاور اور کراچی کے دو اخبارات جسارت اور مشرق میں ہفتے میں سیاسی حالات پر دو کالم لکھنا ہوتے ہیں۔کراچی کے دونیوز میگزینز اخبار جہاں اور فرائیڈے اسپیشل میں ہفتہ وار سیاسی تجزیے لکھنا ہیں،ایک ڈیجیٹل چینل پر پوڈ کاسٹ اور ایک قومی چینل پر ٹاک شوکی میزبانی کرنی ہے۔اس کے بعد اپنے یوٹیوب چینل اور ٹک ٹاک اکاونٹ پر جس کی ویور شپ ہزاروں میں بھی چلی جاتی ہے حالات حاضرہ پر اپنا وڈیو تبصرہ دینا ہے۔انٹرنیٹ کی بندش نے میرا یہ سب کام ٹھپ کر دیا ہے۔ اس کوفت کا حساب کس سے لیا جائے؟میں نے 1990میں صحافت کا آغاز کیا۔ کالم قلم سے لکھے جاتے تھے اور بذریعہ ڈاک دفاتر کو روانہ کئے جاتے تھے۔ضروری خبر سٹڈی یا نان سٹڈی فون سے لکھوالی جاتی اور روٹین کی خبریں ایک لفافے میں بند کرکے حوالہئ ڈاک کی جاتیں یا پھر ٹیلی گرام کے ذریعے بھیجی جاتیں جو اخبار کے دفتر میں ٹیلی پرنٹر پر نکلتی رہتیں۔اس کے ساتھ ہی فیکس مشین بھی آگئی تو سارے سفر میں ایک بڑا موڑ آگیا جس سے صحافتی مواد کی ترسیل کا نظام تیز تر ہوگیا۔نوے کی دہائی اس انقلاب کے ساتھ گزری تو دوہزاری میں انٹرنیٹ عام ہوا۔کتابت اور ہاتھ سے لکھنے کی جگہ کمپوزنگ اور کمپیوٹر نے لی۔ساتھ ساتھ موبائل عام ہوا تو پھر تو اس شعبے کی دنیا ہی بدل گئی۔سہولتوں کے لحاظ سے صحافیوں کے لئے آسانیاں پیدا ہوگئیں۔اس عرصے میں صحافت پرنٹ سے الیکٹرونک اور اب ڈیجیٹل میڈیا کی سمت منتقل ہوتی چلی گئی۔انٹرنیٹ اب معاشرے کی بنیادی ضرورت بن گیا ہے کیونکہ یہ تعلیم کے حصول کا