کالمزمظفرآباد

ہمت کرے انساں تو کیا کچھ ہو نہیں سکتا

میں نے اپنی کتاب میزانِ زیست (صفحہ 354، اشاعت 2017) میں لکھا تھا:
“آزاد کشمیر حکومت کی اندرونی خودمختاری کو اسمبلی میں مہاجرین مقیم پاکستان کی بارہ نشستوں، حکومت پاکستان، وزارتِ کشمیر امور، کشمیر کونسل، لینٹ افسران اور مقامی ایجنسیوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ آزاد کشمیر میں پاکستانی جماعتوں اور ان کے منتخب نمائندوں نے بھی سوائے الیکشن مہم کے کبھی بااختیار ہونے کی کوشش نہیں کی۔”
مارچ 2024 میں، جب بنگلہ دیش کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا، میں نے جولاء 2024 کے ایک کالم میں واضح کیا تھا کہ اس بحران کی جڑ بھی کوٹہ سسٹم تھا۔ اربوں روپے کی سرکاری و نجی جائیداد نذرِ آتش ہوئی، اور یہی نظام آزاد کشمیر میں مہاجرینِ کشمیر مقیم پاکستان کے کوٹے سے مماثلت رکھتا ہے۔ میں نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں نے اس مسئلے کا ادراک نہ کریں گی تو یہاں بھی خدانخواستہ وہی صورتِ حال جنم لے سکتی ہے۔ افسوس کہ وقت پر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے یہ ساری باتیں کہیں نہ کہیں پڑھی یا سنیں ضرور ہوں گی، جو ان کے لاشعور میں مچلتی رہیں اور بالآخر 2024 اور اب 2025 میں عوامی تحریک کی صورت میں سامنے آئیں۔ خوش قسمتی سے تاجر ایکشن کمیٹی کے نام سے جنم لینے والی تحریک نے 2024 میں تین انسانی جانوں کی قربانی کے بعد آٹا اور بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء سستی کروائیں۔ پھر یہی تحریک عوامی ایکشن کمیٹی کے جھنڈے تلے آٹھ مزید قربانیوں کے بعد وہ وسیع البنیاد اصلاحات ممکن بنانے میں کامیاب ہوئی جنہیں دہائیوں سے روکا جا رہا تھا۔
اس سلسلے میں پہلے صرف دو وفاقی وزراء پر مبنی کمیٹی اور ایکشن کمیٹی کی بات چیت بے نتیجہ نکلی جس کے بعد مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے پانچ سینئیر ترین اور کہنہ مشق سیاسی شخصآت پر مبنبی اعلی سطح کی کمیٹی مقرر کی گء جس نے 4 اکتوبر کو کئی گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد مرکزی و مقامی حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں نے چار نکات اور پچیس ذیلی نکات پر مشتمل ایک معاہدہ کیا۔
یہ نکات زیادہ تر ڈھانچہ جاتی، انتظامی، مالی اصلاحات اور ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہیں۔ ذیلی پیرا نمبر 3(12) میں ماسوائے آزاد کشمیر سے منتخب ہونے والے اسمبلی ممبران کے، باقی وزرا، ان کی تعداد، اختیارات اور مراعات سے متعلق ہے۔ اس کی آخری سطر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزرا کے اختیارات حتمی فیصلے تک مؤخر رہیں گے۔ ممکن ہے کہ اس میں مہاجرین کی نمائندگی سے متعلق اصلاحات پر زبانی اتفاقِ رائے بھی شامل ہو، لیکن الفاظ میں یہ واضح نہیں ہے۔تاہم آزاد کشمیر سے منتخب ممبران کے استثنی کے بعد باقی بلواسطہ منتخب اور مہاجرین ممبران ہی رہ جاتے ہیں – ان کی بارے میں فیصیلہ نئی اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے جائے گی جو فیصلہ کرے گی –
آزاد کشمیر کے آئین کی تشکیل،ترتیب اور حتمیت پاکستان سے ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی – اس کئے اس کی زمہ داری بنتی ہے کہ اب اس میں کوء جھول نہ رہنے دیں اور گذشتہ دو سال کے تجربہ سے جو سیکھا ہے وہ اب اس می تسکیل نو میں پرو دیں –
دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ کامیابی اور ترقی ہمیشہ مثبت رویوں سے جنم لیتی ہے، جبکہ منفی رویے زوال اور تاریکی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ مثبت رویہ وہ روشنی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں کو بھی چیر کر راہ بنا دیتا ہے۔
میں اپنی قوم بالخصوص نوجوانوں کو اپنے طویل تجربے اور شعوری زندگی کے نچوڑ کی روشنی میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ پوری ریاستِ جموں و کشمیر کے حصول کی تمنا میں اب تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ دنیا جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو عصرِ حاضر کے علم، ٹیکنالوجی اور ریاستی اسرار و رموز سے ہم آہنگ رکھیں اور ہم رنگ ؤ جائیں -۔ خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ان کی تعبیر صرف زمینی اور عصری حقائق کو سامنے رکھ کر ہی ممکن ہے۔ آزاد کشمیر میں ہونے والی ان اصلاحات کو وسیع البنیاد بنا کر مملکت پاکستان کے اندر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے اندر رہنے والے نوجوانوں کے مستقبل کو بھی منظبط کیا جانا وقت کا تقاضا ہے
میں حکومت پاکستان اور اس کی آئینی اکائیوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ جس تدبر سے آزاد کشمیر کی غیر سیاسی لیکن عوامی قیادت اور مرکزی حکو مت کے ساتھ مل کر معاملات سلجھائے گئے یہی اصول پورے ملک میں اپنائیے جائیں اور سب ایک دوسرے کے ساتھ Hand and Gloves e کی طرح جڑ جآئیں –
میں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت اور مر کز کی سیاسی، حکومتی اور ادارتی قیادت سے ملتمس ہوں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ان کے متنازعہ کردار کو بحال رکھتے ہوئے ان کو قانون کے تحت پاکستان کا شہری اور آئین کے تحت مر کز میں پالیسی ساز، فیصلہ ساز، قانوں ساز، حکومت ساز ی کا حصہ اور ایک دوسرے کے سامنے آئین کے تحت جواب دہ بنائیں – میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ سوائے فوج کے (وہ بھی دفاعی اعتبار سے) کشمیر کے تنازعہ کی باریکیوں سے کوء واقف نہیں ہے – پانچ دن کی ہندوستان پاکستان کی جنگ نے پاکستان کے وقار اور قدر منزلت اور کشمیر کی نزاکت کو جو عروج بخشا ہے وہ صرف ایک شعبہ کی وجہ سے ہوا ہے – اس عروج کو صرف سیاسی consolidation اور اقتصادی ترقی سے بحال رکھا جا سکتا ہے –
اس کو مانیں اور اس کا ادراک کریں –

Related Articles

Back to top button